ابھی تو محبوب کا تصور بھی پتلیوں سے مٹا نہیں تھاگراز بستر کی سلوٹیں ہی میں آسماتی ہے نیند رانیابھی ہو اول گزرنے پایا نہیں ستاروں کے کارواں کاابھی میں اپنے سے کہہ رہا تھا شب گزشتہ کی اک کہانیابھی مرے دوست کے مکاں کے ہرے دریچوں کی چلمنوں سےسحر کی دھندلی صباحتوں کا غبار چھن چھن کے آ رہا ہےابھی روانہ ہوئے ہیں منڈی سے قافلے اونٹ گاڑ یوں کےفضا میں شور ان گھنٹیوں کا عجب جادو جگا رہا ہے
Similar Threads:
Bookmarks