
Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
غلافِ چشم میں رکھا ہوا ہے خواب کوئی
سجا گیا ہے چراغوں سے شہرِ آب کوئی
غموں کی دھوپ میں سائے کی طرح ساتھ رہا
بنا گیا مجھے چھُو کر دُرِ نایاب کوئی
مہک اُٹھا تیری خوشبو سے میرا شہرِ مراد
میں پڑھ رہی تھی تمہاری لکھی کتاب کوئی
خزاں کی کوک سے پھوٹی مسرتوں کی کرن
لگا گیا ہے کیاری میں پھر گلاب کوئی
سفر میں دوست ہی چہرے بدل کر ملتے رہے
فریب دیتا رہا اوڑھ کے نقاب کوئی
یقین ہے مجھے اترے گا شب کے ڈھلتے ہی
خیال و فکر کے آنگن میں آفتاب کوئی
بلا کی تشنہ لبی اور سفر میں وحشت تھی
دعا یہی تھی کہ اُترے نہ پھر عذاب کوئی
رہے گی جاری و ساری اگر یہ مشقِ سخن
عطا کرے گا وہ شاہین کو خطاب کوئی
لاجواب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)



Reply With Quote
Bookmarks