اتنی مدّت دِل آوارہ کہاں تھا کہ تجھے
اپنے ہی گھر کے در و بام بھلا بیٹھے ہیںیاد یاروں نے تو کب حرفِ محبت رکھاغیر بھی طعنہ و دشنام بھلا بیٹھے ہیںتو سمجھتا تھا کہ یہ در بدری کا عالمدور دیسوں کی عنایت تھا سو اب ختم ہواتو نے جانا تھا کہ آشفتہ سَری کا موسمدشتِ غربت کی ودیعت تھا سو اب ختم ہوااب جو تو شہرِ نگاراں میں قدم رکھے گاہر طرف کھلتے چلے جائیں گے چہروں کے گلابدوست احباب ترے نام کے ٹکرائیں گے جامغیر اغیار چُکائیں گے رقابت کے حسابجب بھی گائے گی کوئی غیرتِ ناہید غزلسب کو آئے گا نظر شعلۂ آواز میں تُوجب بھی ساقی نے صراحی کو دیا اِذنِ خرامبزم کی بزم پکارے گی کہ آغاز میں تُومائیں رکھّیں گی ترے نام پہ اولاد کا نامباپ بیٹوں کے لیے تیری بیاضیں لیں گےجن پہ قدغن ہے وہ اشعار پڑھے کی خلقتاور دُکھتے ہوئے دل تجھ کو سلامی دیں گےلوگ الفت کے کھلونے لیے بچّوں کی طرحکل کے روٹھے ہوئے یاروں کو منا لائیں گےلفظ کو بیچنے والے نئے بازاروں میںغیرتِ حرف کو لاتے ہوئے شرمائیں گےلیکن ایسا نہیں ایسا نہیں اے دل اے دلیہ تیرا دیس یہ تیرے در و دیوار نہیںاتنے یوسف تو نہ تھے مصر کے بازار میں بھیجنس اس درجہ ہے وافر کے خریدار نہیںسر کسی کا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے یہاںجسم ہی جسم ہے دستاریں ہی دستاریں ہیںتو کسی قریۂ زنداں میں ہے شاید کے جہاںطوق ہی طوق ہیں دیواریں ہی دیواریں ہیںاب نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کیاور نہ آواز کہ "او چاک گریباں والے"نہ کسی ہاتھ میں پتھر نہ کسی ہاتھ میں پھولکر گئے کوچ کہاں کوچۂ جاناں والے٭٭٭
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks