سیلاب کی تباہ کاریاں


کالم نگار | سکندر خان بلوچ(ملتان

)

کہتے ہیں مصیبتیں اکیلے نہیں آتیں بلکہ بٹالینز کی شکل میں وارد ہوتی ہیں۔اسی عذاب سے اب وطن عزیز بھی دوچار ہے ۔پہلے دہشتگردی تشریف لائی ۔ پھر ضربِ عضب کی وجہ سے نو لاکھ آئی ڈی پیز کو بے گھر ہونا پڑا۔ پھر بیٹھے بٹھائے سانحہ ماڈل ٹائون نازل ہوا ۔پھر کنٹینروں نے زندگی عذاب بنائی۔ پھر لانگ مارچ اور دھرنے شروع ہوئے جس سے پورا ملک اور خصوصاً حکومت مفلوج ہو گئی۔ تمام مصائب تا حال اپنی جگہ موجود ہیں۔ کہیں سے خیریت یا خوشی کی خبر نہیں مل رہی تھی کہ پھر اچانک بارش شروع ہوگئی اور آسمان اس زور سے برسا کہ طوفانِ نوح بن گیا۔ اس سے زندگی با لکل مفلوج ہو گئی۔ اس مسلسل بارش کا پہلا نشانہ تو کچے اور کمزور مکانات بنے جو ریت کے گھروندوں کی طرح زمیں بوس ہو گئے اور کئی مکین بھی زندگیوں سے محروم ہو گئے۔ لوگ بھوکے پیاسے گھروں میں مقید رہے۔ یہی حال مال مویشیوں کا تھا۔ ان کیلئے کوئی چارہ مل سکا نہ کوئی پناگاہ۔وہ بھی اس قدرتی آفت کا بری طرح شکار ہوئے۔تیز بارش میں بہت سے جانور تو مر گئے اور کچھ اپنے رسے توڑ کر پناہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ گئے۔مالکان کا کوئی کنٹرول نہ رہا۔
شہر بھی بارش کانشانہ بنے۔ گلیاں اور سڑکیں بارش سے بھر گئیں اور بعض مقامات پر پانی کی سطح پانچ فٹ تک جا پہنچی۔ہمارا شہری نظام بھی بری طرح سے بارش کا شکار ہوا۔ کوئی محکمہ سلامت نہ رہا۔پانی گھروں میں داخل ہو گیا اور کمزور مکانات اپنے ہی مکینوں کے اوپر آگرے۔ بہت سے لوگوں کو تو اس آفت سے بچنے کی مہلت ہی نہ ملی ۔ہمارا سیوریج سسٹم تو عام حالات میں بھی کام نہیں کرتا اور بارش میں تو اسکے کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لہٰذا بارش اور گٹروں کا پانی ایک ہوگیا اور گندگی گھروں میں بہنے لگی۔ کوئی ایسا سرکاری محکمہ نہیں تھا جہاں سے مدد کی امید ہو سکتی تھی یا مدد آتی۔ عوام سیلف ہیلپ کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے۔ ابھی یہ آفت اسی طرح ہی تھی کہ بھارت نے اپنے ڈیمز سے بغیر اطلاع کے پانی چھوڑ دیا۔ تھوڑا بہت بھی نہیں بلکہ 14لاکھ کیوسک جسکا مقابلہ کرنا انسانی بس میں ہی نہیں۔بارشیں اور سیلاب ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں ۔بارشیں بھی عام ہوتی رہتی ہیں اور چھوٹے بڑے سیلاب بھی آتے رہتے ہیں لیکن جب اتنے بڑے سیلاب آئیں تو تباہی بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔ تا دم تحریر تقریباً ڈیڑھ لاکھ مربع ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں ۔سیلابی پانی کی سطح بہت بلند ہے اور بہائو بہت تیز ہے جو کئی چھوٹی بڑی بستیوںکو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے ۔جانور بہہ گئے ہیں جنکا کوئی پتہ نہیں ۔اب تک اندازاً دو ہزارسے زائد بستیاں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں اور 400 سے زائد اشخاص لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔جب حالات نارمل ہو نگے تب نہ جانے کتنے بد قسمت لوگ ہم میں نہیں ہونگے۔ یہ ہماری تاریخ کا بلند ترین سیلاب ہے جس وجہ سے تمام حفاظتی بند توڑنے پڑے اور گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ تریموں ہیڈ ورکس سے8لاکھ کیوسک کا ریلا گزرا جسے برداشت کرنے کی اس پل میں استطاعت ہی نہیں۔ فی الحال تو ہر طرف تباہی ہی تباہی کی داستانیں ہیں۔ انسانی بے بسی بھی اندوہناک صورت اختیار کر چکی ہے۔پہلے لوگ بڑے بڑے حفاظتی پشتوں یا محفوظ علاقوں کے سکولوں یا دیگر سرکاری عمارات میں پناہ لیتے تھے۔ اس دفعہ وہ بھی ممکن نہیں کیونکہ کوئی محفوظ پناہ گاہ بچی ہی نہیں ۔ کئی بڑے پل اور سڑکیں بھی ٹوٹ چکی ہیں۔ ابھی تک تو 2010کے سیلاب کے ٹوٹے ہوئے پل اور تباہ شدہ عمارات ہم مکمل نہیں کر سکے۔ اب نئی تباہی کے بعد کیا صورت حال ہوگی سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ کھڑی فصلیں تو تباہ ہوئی ہی ہیں لوگوں کی محفوظ کی ہوئی گندم بھی سیلاب کی نظر ہو گئی اور اب قحط کا بھی خطرہ ہے۔اکثر مقامات پر تو لوگوں نے جونہی حفاظتی مقامات کیلئے اپنے گھر چھوڑے پیچھے سے ڈاکو کشتیاں لے کر آئے اور سارے گھر لوٹ کر لے گئے۔ اس دفعہ کھربوں کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ ذاتی نقصانات کے علاوہ انفراسٹرکچر کی بھی بڑے پیمانے پر تباہی کا خدشہ ہے۔ سیلاب کم ہونے کے بعد سبزی ہوگی نہ چارہ اور نہ غریب لوگوں کیلئے مکانات۔ حالات ایک بہت بڑے انسانی المیے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
قدرتی آفات ہر ملک میں آتی ہیں۔ انہیں روکا جا سکتا ہے اور نہ انکی تباہی سے بچا جا سکتا ہے لیکن گڈ گورننس کے ذریعے تباہی کے اثرات یقیناً کم کئے جا سکتے ہیں۔ایسے حالات میں حکومتیں بہت ایکٹیو کردار ادا کرتی ہیں اور عوام کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہوتی ہیں لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ گڈ گورننس تو رہی ایک طرف یہاں تو سرے سے حکومت ہی نظر نہیں آتی کہ متاثرہ عوام کسی سے رجوع کریں۔ اور تو اور 2010کی فلڈ کمیشن رپورٹ عوام کے سامنے آئی نہ اب تک اس پر عمل ہوا ۔اس تباہی میں ہمارے اسمبلی ممبران اور جاگیرداروں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ۔ کئی ایسے محبِ وطن ممبران نے اپنی زمینیں اور کارخانے بچانے کیلئے بند نہ توڑنے دئیے اور تباہی اپنا رنگ دکھاتی رہی۔ دوسرا یہ بھی نظریہ ہے کہ جتنی زیادہ تباہی ہوگی اتنی زیادہ امداد ملے گی اور یہ امداد انہی ممبران کی معرفت ہی تو تقسیم ہونی ہے۔ بہت سے گائوں اس وجہ سے بھی تباہ ہوئے کہ حکومت نے بروقت صحیح صورتِ حال ٹی وی یا ریڈیو پر نشر ہی نہ کی کہ لوگ نکل سکتے۔
ہمارے سرکاری محکموں کی زبو حالی ویسے ہی بہت تکلیف دہ ہے۔ جونہی بارش کی بوند پڑتی ہے واپڈا اور ٹیلیفون ڈیپارٹمنٹ کے فونز سب بند کر دئیے جاتے ہیں۔لہٰذا کسی کی شکایت سننے یا اسے دور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پولیس کو وی آئی پی ڈیوٹیوں سے فرصت نہیں۔ ہسپتالوں میں نہ بیڈز ہیں نہ عوام کی کوئی بات سنتا ہے ۔عوام ٹکریں ماریں یا دھکے کھائیں کسی کو پرواہ نہیں۔ فوٹو سیشن کیلئے جناب خادم اعلیٰ صاحب پانی میں اترتے ہیں اور مختلف مقامات کا دورہ بھی کرتے ہیں لیکن ان دوروں کا عوام کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے کیونکہ تمام ضلعی افسران تو وزیر اعلیٰ صاحب کے پروٹوکول میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یوں انکی توجہ عوامی خدمت سے ہٹ جاتی ہے۔ ویسے بھی ضلعی انتظامیہ کے پاس کوئی ایسی منصوبہ بندی ہے اور نہ کوئی سہولت کہ وہ عوام کیلئے کچھ کر سکیں۔ انکے پاس فنڈز بھی بہت محدودہیں جو ہزاروں لوگوں کو ایک وقت کا کھانا بھی پورا نہیں کر سکتے۔مزید یہ کہ کشتیاں ہیں نہ ہیلی کاپٹرز کہ وہ لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نکال سکیں۔ لے دیکر وہ صرف اعلانات کر سکتے ہیں جو وہ کرتے رہتے ہیں لیکن عوام انکی کم ہی سنتے ہیں ۔زبردستی وہ کسی کو علاقے سے نکال نہیں سکتے۔ویسے پیپرز پر تو فلڈ ریلیف کمیشن، ما حولیاتی ایجنسیاں اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ جیسے ادارے موجود ہیں۔ انکے اربوں میں بجٹ ہیں ۔اہلکاروں کی فوج ظفر موج بھی موجود ہے لیکن کارکردگی کہیں نظر نہیں آتی اسی لئے حکومت اور حکومتی اداروں پر اب عوام کا اعتماد ہی نہیں رہا۔ بہر حال سب سے زیادہ دکھ اس لال سرخ پانی کو سمندر میں ضائع ہوتے ہوئے دیکھ کر ہوا ہے۔ یہ ہمارے کھیتوں کیلئے سونے سے بھی زیاد ہ قیمتی ہے کاش کوئی ایسا ڈیم ہوتا کہ ہم اسے ضائع ہونے سے بچا سکتے۔



Similar Threads: