جاتے سال کی آخری شب ہے
چہل چراغ کی روشنیوں سے
بادۂ گلگوں کی رنگت سے
جگر جگر کرتے پیمانے
جیسے جاتے سال کی گھڑیاں
جیسے دیے سے ہوا کی چاہت
جیسے دید کی آخری ساعت
جیسے بھولتی یاد کی کڑیاں
خواب اگر جھوٹے ہوتے ہیں
کب سچی تعبیریں ہوں گی
ہاتھوں میں گلدستے لیکن
پاؤں میں زنجیریں ہوں گی
آؤ آخری رات ہے سال کی
دل کہتا ہے بزمِ وصال کی
سب شمعیں، ساری خوشبوئیں
تن من میں رس بس جانے دو
یہ جو لہو سے اَبر اٹھا ہے
آج کی رات برس جانے دو
لیکن باہر جھانک کے دیکھو
جیسے آج کی رات ستارے
چُپ بیٹھے آکاش کنارے
جاگ رہے ہیں، سوچ رہے ہیں
جاتے سال کی آخری شب ہے
کل کا سورج کیسے ہو گا
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks