بھول جائیں تو آج بہتر ہےسلسلے قرب کے، جدائی کےبجھ چکی خواہشوں کی قندیلیںلٹ چکے شہر آشنائی کےرائیگاں ساعتوں سے کیا لینازخم ہوں، پھول ہوں، ستارے ہوںموسموں کا حساب کیا رکھناجس نے جیسے بھی دن گزارے ہوںزندگی سے شکایتیں کیسیاب نہیں ہیں اگر گلے تھے کبھیبھول جائیں کہ جو ہُوا سو ہُوابھول جائیں کہ ہم ملے تھے کبھیاکثر اوقات چاہنے پر بھیفاصلوں میں کمی نہیں ہوتیبعض اوقات جانے والوں کیواپسی سے خوشی نہیں ہوتی٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks