میرے بچوں کے جسموں پر
زخموں کے پیراہن ہیں
ممتاؤں کی خالی گودیاں
بِن کتبوں کے مدفن ہیں
جتنے بھی ساونت جواں تھے
پیہم کٹتے جاتے ہیں
میرے باغ کے جتنے پھول تھے
پل پل گھٹتے جاتے ہیں
لہو لہان ہیں گلیاں کوچے
آنگن خون سے جل تھل ہیں
سب دہلیزوں پر لاشیں ہیں
سب چوراہے مقتل ہیں
کچھ خیمے، کچھ زندہ سائے
اب میدان میں باقی ہیں
چند عَلم کچھ گیت ابھی تک
اس طوفان میں باقی ہیں
تیل کے چشموں کے سوداگر
اَن داتا خوش بیٹھے ہیں
محل سرا کی حَرم سرا میں
خواجہ سَرا خوش بیٹھے ہیں ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks