عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
حسن خود محوِ تماشا ہوگا
سُن کے آوازۂ زنجیرِ صبا
قفسِ غنچہ کا در وا ہوگا
جرسِ شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپرِ عنقا ہوگا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئ ہم سا ہوگا
کون دیکھے گا طلوعِ خورشید
ذرّہ جب دیدۂ بینا ہوگا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئ کیا ہوگا
پھر سلگنے لگا صحراۓ حیات
ابر گھِر کر کہیں برسا ہوگا
پھر کسی دھیان کے صد راہے ہر
دلِ حیرت زدہ تنہا ہوگا
پھر کسی صبحِ طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہوگا
گل زمینوں کے خُنُک رمنوں میں
جشنِ رامش گری برپا ہوگا
پھر نئ رُت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بوٗ چمن آرا ہوگا
گُلِ شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلقِ صبح روانہ ہوگا
پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید
نکہتِ گُل کا بسیرا ہوگا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہوگی
اک شرر پھول میں لرزا ہوگا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہوگا
دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں
پتّہ پتّہ لبِ گویا ہوگا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اترا ہوگا
Similar Threads:
Bookmarks