یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو
وہ آئیں نہ آئیں، مگر امید نہ ہارو
شاید کسی منزل سے کوئ قافلہ آۓ
آشفتہ سرو صبح تلک یوں ہی پکارو
دن بھر تو چلے اب ذرا دم لے کے چلیں گے
اے ہم سفرو آج یہیں رات گزارو
یہ عالمِ وحشت ہے تو کچھ ہو کے رہے گا
منزل نہ سہی، سر کسی دیوار سے مارو
اوجھل ہوۓ جاتے ہیں نگاہوں سے دو عالم
تم آج کہاں ہو غمِ فرقت کے سہارو
کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئ نہیں ہے
یہ بات مگر کون سُنے، لاکھ پکارو!!
Similar Threads:
Bookmarks