یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظّارا
یہیں ملے گا مجھے میرا انجمن آرا
خیالِ حسن میں کتنا بہار پرور ہے
شبِ خزاں کی خنک چاندنی کا نظّارا
چلے تو ہیں جرسِ گل کا آسرا لے کر
نہ جانے اب کہاں نکلے گا صبح کا تارا
چلو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی
خبر بہار کی لایا ہے کوئ گُل پارا
چلے چلو انھیں گم نام برف زاروں میں
عجب نہیں یہیں مل جاۓ درد کا چارا
کسے مجال کہ رُک جاۓ سانس لینے کو
رواں دواں لۓ جاتا ہے وقت کا دھارا
بگولے یوں اُڑے پھرتے ہیں خشک جنگل میں
تلاشِ آب میں جیسے غزالِ آوارا
ہمیں وہ برگِ خزاں دیدہ ہیں جنھیں ناصر
چمن میں ڈھونڈتی پھرتی ہے بوۓ آوارا
Similar Threads:
Bookmarks