چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سےتمنا کی عماری جا رہی ہےفغاں اے دشمنی دارِ دل و جاںمری حالت سُدھاری جا رہی ہےجو اِن روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہےکہ غم سے بُردباری جا رہی ہےہے سینے میں عجب اک حشر برپاکہ دل سے بے قراری جا رہی ہےمیں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہےوہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہےدل اُس کے رُو برو ہے اور گُم صُمکوئی عرضی گزاری جا رہی ہےوہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھمیاں عزت ہماری جا رہی ہے
Similar Threads:
Bookmarks