یہاں تو کوئی مَن چلا ہی نہیں
کہ جیسے یہ شہرِ بَلا ہی نہیں
ترے حسرتی کے ہے دل پر یہ داغکوئی اب ترا مبتلا ہی نہیںہوئی اُس گلی میں فضیحت بہتمگر میں وہاں سے ٹَلا ہی نہیںنِکل چل کبھی آپ سے جانِ جاںترے دل میں تو ولولہ ہی نہیںدمِ آخر جو بچھڑے تو بسپتا بھی کسی کا چَلا ہی نہیںقیامت تھی اُس کے شکم کی شکنکوئی بس مرا پھر چلا ہی نہیںاُسے خون سے اپنے سینچا مگرتمنا کا پودا پَھلا ہی نہیںکہاں جا کے دنیا کو ڈالوں بَھلاادھر تو کوئی مزبلہ ہی نہیںاک انبوہِ خونیں دلاں ہے مگرکسی میں کوئی حوصلہ ہی نہیں
Similar Threads:
Bookmarks