خون تھوکے گی زندگی کب تک
یاد آئے گی اب تری کب تک
جانے والوں سے پوچھنا یہ صبارہے آباد دل گلی کب تک
ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیبپیے جاؤں میں خون ہی کب تک
دل نے جو عمر بھر کمائی ہےوہ دُکھن دل سے جائے گی کب تک
جس میں تھا سوزِ آرزو اس کاشبِ غم وہ ہوا چلی کب تک
بنی آدم کی زندگی ہے عذابیہ خدا کو رُلائے گی کب تک
حادثہ زندگی ہے آدم کیساتھ دے گی بَھلا خوشی کب تک
ہے جہنم جو یاد اب اس کیوہ بہشتِ وجود تھی کب تک
Similar Threads:
Bookmarks