Originally Posted by intelligent086 وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا پلک جھپکتے ، ہَوا میں لکیر ایسا تھا اسے تو دوست ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ بھی تھے خطا نہ ہوتا کسی طور ، تیر ایسا تھا پیام دینے کا موسم نہ ہم نوا پاکر پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا کسی بھی شاخ کے پیچھے پناہ لیتی میں مجھے وہ توڑ ہی لیتا، شریر ایسا تھا ہنسی کے رنگ بہت مہربان تھے لیکن اُداسیوں سے ہی نبھتی ، خمیر ایسا تھا ترا کمال کہ پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں غزالِ شوق کہاں کا اسیر ایسا تھا! *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks