Originally Posted by intelligent086 پھُول آئے ، نہ برگِ تر ہی ٹھہرے دُکھ پیڑ کے بے ثمر ہی ٹھہرے ہیں تیز بہت ہَوا کے ناخن، خوشبو سے کہو کہ گھر ہی ٹھہرے کوئی تو بنے خزاں کا ساتھی پتّہ نہ سہی ، شجر ہی ٹھہرے اس شہرِ سخن فروشگاں میں ہم جیسے تو بے ہُنر ہی ٹھہرے اَن چکھّی اڑان کی بھی قیمت آخر مرے بال و پر ہی ٹھہرے روغن سے چمک اُٹھے تو مجھ سے اچھّے مرے بام و در ہی ٹھہرے کچھ دیر کو آنکھ رنگ چھُو لے تتلی پہ اگر نظر ہی ٹھہرے وہ شہر میں ہے ، یہی بہت ہے کس نے کہا ، میرے گھر ہی ٹھہرے چاند اُس کے نگر میں کیا رُکا ہے تارے بھی تمام اُدھر ہی ٹھہرے ہم خود ہی تھے سوختہ مقدر ہاں! آپ ستارہ گر ہی ٹھہرے میرے لیے منتظر ہو وہ بھی چاہے سرِ رہگزر ہی ٹھہرے پا زیب سے پیار تھا ، سو میرے پاؤں میں سدا بھنور ہی ٹھہرے *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks