سناّٹا فضا میں بہہ رہا ہے
دُکھ اپنے ہَوا سے کہہ رہا ہے
برفیلی ہوا میں تن شجر کا
ہونے کا عذاب سہہ رہا ہے
باہر سے نئی سفیدیاں ہیں
اندر سے مکان ڈھ رہا ہے
حل ہو گیا خون میں کُچھ ایسے
رگ رگ میں وہ نام بہہ رہا ہے
جنگل سے ڈرا ہُوا پرندہ
شہروں کے قریب رہ رہا ہے
***
Similar Threads:
Bookmarks