Originally Posted by intelligent086 دسترس سے اپنی، باہر ہو گئے جب سے ہم اُن کو میسر ہو گئے ہم جو کہلائے طُلوعِ ماہتاب ڈوبتے سُورج کا منظر ہو گئے شہرِ خوباں کا یہی دستور ہے مُڑ کے دیکھا اور پتھر ہو گئے بے وطن کہلائے اپنے دیس میں اپنے گھر میں رہ کے بے گھر ہو گئے سُکھ تری میراث تھے، تجھ کو ملے دُکھ ہمارے تھے، مقدر ہو گئے وہ سر اب اُترا رگ و پے میں کہ ہم خود فریبی میں سمندر ہو گئے تیری خود غرضی سے خود کو سوچ کر آج ہم تیرے برابر ہو گئے *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks