اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کے، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گئی
وہ جواب مجھ کو دے نہ سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو پر کمال تھا
***
Similar Threads:
Bookmarks