Originally Posted by intelligent086 یوں حوصلہ دل نے ہارا کب تھا سرطان مرا ستارا کب تھا لازم تھا گزرنا زندگی سے بِن زہر پیئے گزارا کب تھا کچھ پل مگر اور دیکھ سکتے اشکوں کو مگر گوارا کب تھا ہم خود بھی جُدائی کا سبب تھے اُس کا ہی قصور سارا کب تھا اب اور کے ساتھ ہے تو کیا دکھ پہلے بھی وہ ہمارا کب تھا اِک نام پہ زخم کھل اٹھے تھے قاتل کی طرف اشارا کب تھا آئے ہو تو روشنی ہوئی ہے اس بام پہ کوئی تارا کب تھا دیکھا ہوا گھر تھا پر کسی نے دُلہن کی طرح سنوارا کب تھا *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks