Originally Posted by intelligent086 یا رب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے لہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دے دُنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دے رگ رگ میں اُس کا لمس اُترتا دکھائی دے جو کیفیت بھی جسم کو دے ، انتہائی دے شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے تخئیل ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہ آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے تو مجھ کو کربِ ذات کی سچی کمائی دے دُکھ کے سفر میں منزلِ نا یافت کُچھ نہ ہو زخمِ جگر سے زخمِ ہُنر تک رسائی دے میں عشق کائنات میں زنجیر ہو سکوں مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں دشتِ بلا میں ، رُوح مجھے کربلائی دے *** Nice Sharing ..... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ..... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks