ہجومِ فکر و نظر سے دماغ جلتے ہیں
وہ تیرگی ہے کہ ہر سو چراغ جلتے ہیںکچھ ایسا تند ہوا جا رہا ہے بادۂ زیستکہ ہونٹ کانپتے ہیں اور ایاغ جلتے ہیںچمک رہے ہیں شگوفے، دہک رہے ہیں گلاب
وفورِ موسمِ گل ہے کہ باغ جلتے ہیںنہیں قریب تو کچھ دور بھی نہیں وہ دورشفق کے روپ میں جس کے سراغ جلتے ہیںترے نصیب میں راتیں، مرے نصیب میں دنترے چراغ، مرے دل کے داغ جلتے ہیں***دشتِ وفا سے
Similar Threads:
Bookmarks