تحریر محمد شفیع ملک
قدیم زیم زمانہ ہی سے انسان کھیل کود اور ورزش میں دلچسپی لیتا رہا ہے کیونکہ تندرستی اور صحت کو بر قرار رکھنے کیلئے اچھی غذا، نیندو آرام ،صفائی و ستھرائی اور اچھے ماحول کے ساتھ ساتھ وَرزش کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ وَرزش جسم کو چست ودرْست رکھتی ہے اور تکان وتنائوسے محفوظ رکھتی ہے۔جہاں قدیم طب نے ورزش کو صحت کے اسباب میں شامل کر رکھاتھا جو انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتی تھی وہیں ا?ج جدید طب نے اس کو اہمیت اور بڑھادی ہے۔
اسلام نے بھی صحت اور وَرزش کے متعلق درس دیا ہے اور اس کی اہمیت بھی بیان کی ہے ۔ انسان کاظاہری حصہ اس کا جسم ہے اور باطنی حصہ اس کا قلب ہے۔ قلب کی اصلاح کیلئے جہاں اسلام نے بے حد تاکیدکی ہے اسی طرح جسم کو دْرست بناے کیلئے بھی تاکید فرمائی ہے ۔ جسم کو صحت مندرکھنے کیلئے وَرزش کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے جس نے پوری انسانی برادری کے لئے ایک مقصد حیات عطاکیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد پا کیزگی اور صفائی پر قائم کی ہے اور وہ کائنات میں انسان کو درپیش تمام معاملات میں غور و فکر کی دعوت دیتاہے اور مسائل حل بھی عطا کرتا ہے ۔ایک طرف نماز کو اسلام کا بنیادی جْز ہے دوسری طرف جسم کے تقاضوں کو بھی نظرانداز نہیں کئے جاتے اور روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کو جسمانی ترقی ، طاقت وصحت سے بھی نوازتا ہے۔
اسلام قید کا مذہب نہیں نہ سختی کا مذہب ہے بلکہ اسلام پابندی اورنظم وضبط کا مذہب ہے۔ اْمت جب بھی ان پابندیوں اورڈسپلن کو اپنے اوپر لاگوکرکے زندگی گزارے گی وہ خوشحال اور کامران ہوگی اور ترقی کی منازل طے کرتی چلی جائے گی لیکن آج ہم نے صحت وتندرستی تفریح کو حاصل کرنے کیلئے جس انداز کی کوشش اور کھیلوں کا انتخاب کیا ہے اس کا انجام کیا ہوگا ،وہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ نبی اقدس صلعم کا ارشاد گرامی ہے کہ اے علی! اپنی ران دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کرو اور کسی زندہ یا مردہ (کی ) ران کی طرف نہ دیکھو۔(مشکوٰ صبوداوئو۔ابن ماجہ)
آج کل ہمارے ہاں جو کھیل مثلاً فٹ بال، ہاکی، ٹیبل ٹینس، Wrestling وغیرہ وغیرہ متعارف ورائج ہیں ان کھیلوں میں حصہ لینے والے مرد اور عورتیں مندرجہ بالاحدیث طیبہ کی کھلم کھلامخالفت کرتے ہیں اور مفت میں دیکھنے والے لوگ بھی گناہ گار ہوتے ہیں ۔
ناف سے لے کرگٹھنے کی ختم تک کسی بھی مرد کو کسی مرد کی طرف بلاعذرشرعی دیکھناحلال نہیں ہے۔ اس طرح کشتی کے اکھاڑوں ، فٹ بال ، ہاکی، ٹیبل ٹینس، کے میچوں میں ناف سے لے کر گھٹنوں سے ختم تک کسی حصہ کو کسی سے سامنے کھولنا یا کسی سے ستر کا کوئی حصہ دیکھنادونوں حرام ہیں بشرطیکہ اْس نے وہ حالت خود بخودبنارکھی ہو جس میں کشش ہو اورغیروں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ذریعہ ہو۔ افسوس کا مقام ہے کہ پہلوانی کرتب کے مقابلوں ، ہاکی،کرکٹ میچوں میں جس وقت کوئی کھلاڑی بہت بڑا کارنامہ دکھاتا ہے اْس کے فوراً بعد عریاں عورتوں کی نمائش ایسی ہو رہی ہے کہ جس کو دیکھ کر شائد شیطان بھی گھبراتا ہو گا۔اسی طرح دْنیا میں ہورہے مقابلہ حْسن میں عریاں عورتوں کی نمائش کو دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ لہٰذا ان کھیلوں کو منعقد کرنا یا دیکھنا دونوں حرام اور گناہ ہے، مسلمان کو ان سے دور رہنا چاہے تاکہ انسان خدائے قہار کے غضب سے بچ سکے۔
حضرت جسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد نظری کرنے والے پر اور جس کی طرف بدنظری کی جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ،بشرطیکہ اس نے وہ حالت بنارکھی ہو جس میں کشش ہو یعنی عریانیت اختیار کی ہو۔(سنت نبوی اور جدید سائنس بحوالہ بیہقی شریف)
گویا اپنے ستر کو بر ہنہ کرنے والے اور ان کے برہنہ ستر کودیکھنے والے تمام مرد اور عورتیں ملعون ہیں ۔
اسلام نے اْن کھیلوں پر پابندی عائد کی ہے جو معاشرہ میں شرو فسادپھیلاتے ہیں اور بیہودگی والے کھیل جو وقت کے ساتھ ساتھ صحت اور معاشرہ کو بھی بربادکرتے ہیں اور جن کھیلوں میں مکمل پردہ ہو،وقار اور عزت ہو ان کو ہمارے پیارے آقامحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا یا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کواس کی ترغیب بھی دی ہے ۔اس میں گھوڑ سواری ، تیراکی اور تیراندازی وغیرہ شامل ہیں ۔علاوہ ازیں آپ چہل قدمی کی غرض سے باغات بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلعم نے شراب پینے، جواکھیلنے کو منع فرمایا ہے اورنرداور شطرنج ،نقارہ اور بربط سے بھی منع فرمایا ہے۔ (ابوداوودو مشکوٰ شریف)
حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلعم کبھی کبھی تیرنے کا شوق فرماتے اور کبھی کبھی باغات میں تشریف لے جاتے۔(شمائل ترمذی) ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ چیز جس میں اللہ جل شانہ کا ذکر نہ ہو لہوولعب ہے ، سوائے چار چیزوں کے، آدمی کا اپنی بیوی سے ہنسی مذاق کرنا ، اس کا اپنے گھوڑے کوسدھانا، نشانات متعین کرکے ان کے درمیان چلنا اور تیرا کی کی تعلیم دینا ۔(نسائی شریف)
نبی اکرم تیرنے سے بھی دلچسپی رکھتے تھے، اس لئے تیرنے سے جسم کی بہترین ورزش ہوتی ہے۔ایک بار ایک تالاب میں آپ اور چند صحابہ تیررہے تھے۔ آپۖ نے تیرنے والوں میں سے ہر ایک کی جوڑی مقررفرمادی کہ ہر آدمی اپنے جوڑکی طرف تیرکر پہنچے۔ آپۖ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ قرارپائے۔ آپ صلعم تیرتے ہوئے ان تک پہنچے اور جاکر ان کی گردن پکڑی۔ ( مشکوٰ شریف)
سیدنا سرورکونین ۖ کا ہر عمل اپنے وسیع الاثر دامن میں بے شمار سائنسی،طبی، نفسیاتی ، دنیاوی، اور اْخروی فوائدلئے ہوئے ہے۔ تیراکی کے بارے میں جدید سائنس کہتی ہے کہ تیراکی سے دماغی صلاحتیں ، اعصابی اور عضلاتی سکون، سوچوں کی گہرائیاں ،خون کی تازگی اور جسم کی سختی، مشقت پسندی اور ہاتھ پائوں کی حرکات میں مضبوطی، گرفت کی مضبوطی وغیرہ تمام چیزیں حاصل ہوتی ہیں ۔ یہی سائنسی فوائد گھوڑ سواری میں ملتے ہیں ۔ چونکہ گھوڑ سواری بھی رسول اللہ صلعم کو بے حد پسند تھی۔ حضور پْر نورصلعم کے زمانہ میں یعنی آغاز اسلام میں جدید سائنس وٹیکنالوجی تو تھی نہیں ، اس وقت تیراکی ، گھوڑسواری ،تلوار بازی وغیرہ کو کھیل اور ورزش کے زمرہ میں شمار کیا جاتا تھا تاکہ قوم کیلئے صحت مند اور ہنرمندمعاشرہ تیارکیا جاسکے جو بآسانی دشمن پر غلبہ پاسکے۔ اسلام سے پہلے عربوں میں رواج تھا کہ وہ مختلف فن جیسے گھوڑ سواری ، تلوار بازی ، کشتی وغیرہ کے مقابلے کرواتے اور جو جیت جاتا او کو انعام و اکرام سے نواز تے۔ جب اسلام آیا تو پیارے آقا صلعم نے اپنے پیارے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی اور کبھی خود بھی مقابلہ میں حصہ لینے کی اجازت دی اور کبھی خودبھی ان میں حصہ لیا،ان مقابلوں کا مقصد تھا کہ صحابہ ?مختلف فن سے ا?شنا ہوتے رہیں اور جنگ کی تیاری بھی کرتے رہیں ،دوسری طرف اْن کی صحت وتندرستی بھی قائم رہے ، ان کو قوت میں اضافہ ہوا ،انہیں اپنے جوہر دکھانے کا بھر پور موقعہ بھی ملے،جس کی اْس وقت اسلام کو ضرورت بھی تھی کیونکہ صحت مند و توانار ہناصرف انفرادی طور پر ہی انسان کو قوت عطانہیں کرتا بلکہ اس کی وہ قوت پوری قوم اور دین اسلام کی قوت میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔حضور پاک صلعم نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہم کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ اللہ کے نزدیک کمزور مومن کے مقابلہ قوی مومن زیادہ پسندیدہ ہے۔(مسلم)
ایک ایسے ہی مقابلہ میں جب عرب کے مشہور پہلوان رْکانہ نے رسول اللہ صلعم کے سامنے شرط رکھی کہ آپ صلعم مجھ سے کشتی لڑیں ، ا?پ جیت جائیں تو میں مسلمان ہوجائوگا۔ رسول اللہ صلعم نے یہ دعوت قبول کرلی ،مقابلہ ہوا آپ صلعم جیت گئے ۔ اہمیت اصل میں جسم وطاقت کی تھی یہ اسلام کی جیت بن گئی کیونکہ رْکانہ نے اسلام قبول کرلیا۔( ابودائود)
سورہ انفال کی آیت نمبر60میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ دشمن کے سامنے اپنے آپ کو پوری طرح تیار رکھوتا کہ وہ ڈرے رہیں ، آج کل جنگیں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر لڑی جارہی ہیں ۔ ہر ملک اپنے فوجیوں اور عوام کو چست و درسْت بنانے پر لگا ہوا ہے اور نئی نئی ٹیکنا لوجی کو اپنا رہاہے کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال تب ہی اچھی طرح سے ہو سکتاہے جب عوام اور فوج ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند اور چست ہوں ۔اس لئے ضرورت ہے کہ مسلمان بھی صحت پر توجہ دیں اور جدید سائنس وٹیکنالوجی کو اپنا ئیں کیونکہ جدید ٹکنالوجی کو اپنائے بغیراب کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا ۔اس کے علاوہ وہ کھیل جو اسلام کی رْوسے مناسب ہوں اْن کو اپنا ئیں اور اپنے آپ کونئی دْنیا کے تقاضوں سے آشنا کریں ۔ فرمان رسول صلعم تمہارے جسم کا تم پرحق ہے۔(مشکواة)
یعنی انسان کو اپنے بدن کا پوراحق ادا کرنا چاہئے ۔حق سے مرادیہ ہے کہ جسم کو صحت مند اور توانا بنائے رکھنے اور آرئش کیلئے وہ اصول اختیار کرے جو فائدہ مند ہوں ، اْن چیزوں سے پر ہیز کر ے جو نقصان دہ ہوں ۔ اپنی جسمانی آرائش کا خیال رکھے کیونکہ ایک کمزور انسان کسی کو غلط بات یا غلط کام کرنے سے نہیں روک سکتا لیکن ایک صحت مند انسان کسی کے غلط عمل کو بزورِ طاقت روک سکتاہے۔
جدیددور میں صنعتی فروغ نے انسان کو حد سے زیادہ کمزور اور بیماربنادیا ہے۔ انسان کی اپنے حفظِصحت سے لاتعلقی اور لاپرواہی حدسے زیادہ بڑھ چکی ہے کیونکہ آج ہر کام مشینوں کے ذریعے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان حد سے زیادہ آرام طلب ہوگیا ہے اور وہ مختلف قسم کے امراض کے شکنجہ میں کستا چلاجارہا۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدطب نے ایسے امراض کے مریضوں کو ورزش اورکسرت آدمی کو چست و توانا بنا دیتی ہے اور تھکان سے دْور رکھتی ہے اور یہ انسان کے خلیات سے کمزوری دْور کرتی ہے۔ ورزش کیلئے ہوا خوری اور چہل قدمی کا ایک اور فائدیہ ہے کہ یہ خون میں کو لیسٹرول کو بڑھنے نہیں دیتی بلکہ اس میں کمی کا سبب نبتی ہے۔ شریانوں کو درست رکھنے کیلئے بھی ٹہلنا اور وَرزش کرنا بہترین علاج ہے، دل و ماغ کو صحیح طور پر کام کرنے کیلئے مجبور کرتی ہے۔ ورزش کرنے سے لوگوں کو دِل کا مرض لا حق نہیں ہوتا کیونکہ ان کو شریانوں میں چربی یعنی کولسٹرال جمع نہیں ہوتا جو دل کی بیماری کی اہم وجہ ہے۔ علاوہ ازیں خون کا دوران اعتدال پر رہتا ہے اور انسان کو اعصابی دبائو و تکان سے نجات ملتی ہے اور جو قوت جسمانی کام کیلئے ضروری ہوتی ہے وہ ورزش کے بعد باآسانی دستیاب ہو جاتی ہے، کیونکہ ورزش کے ذریعے لائے گئے غذائی اجزا ء کا انجذ اب بہترطریقہ سے ہوتا ہے اور انسان دل کے عوارض کے علاوہ امراضِ ہاضمہ سے بھی پاک رہتا ہے، اْس کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔ طبیعت میں سکون پیدا ہو تا ہے اور انسانی بدن مضبوط و توانا اور مختلف امراض سے لڑنے کے قابل رہتا ہے۔(یو این این)


Similar Threads: