آج ہم سب جن مصائب و مشکلات سے گزرر ہے ہیں وہ انتہائی پرآشوب اور پریشان کن ہیں ۔ اغیار کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑ میں رکھاہے۔ آج آپ زندگی کے جس شعبہ سے بھی متعلق کسی شخص سے بات کریں گے تو یہی سننے کو ملتاہے کہ حالات بہت ہی خراب ہیں ۔ ہرسو اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ چند مخصوص طبقوں کو چھوڑ کر ہر شخص شدید مشکلات اور مصائب کا شکار اور بے بسی اور مایوسی کی گرفت میں ہے۔ حد یہ ہوگئی ہے کہ جس چیز کا ہمارے معاشرے میں تصور نہیں کیا جاتاتھا آج انہیں سے سابقہ پیش آرہا ہے۔حالات سے مایوسی اور بیزاری ہوکر اب معصوم بچیاں تک خودکشی کرنے لگی ہیں اور اس میں روز افزوں اضافہ ہوتاہے۔ اس میں گرچہ بہت سے عومامل کارفرما ہیں مگر بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں نہ کہیں امن اور نہ ہی کوئی سکون، یہاں تو دن کی روشنی میں بھی اب اپنے ہی سائے سے ڈر سا لگتاہے۔ یہ سب اسی لیے کہ امن کا فقدان ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں نہیں موندھنی چاہیے کہ جس طرح انسان کے لیے ہوا غذا اہم اور ایک بنیادی ضرورت ہے اسی طرح انسانی معاشرے اور سوسائٹی کے لیے سب سے اہم اور بنیادی ضرورت امن و سلامتی ہے۔ اس حقیقت سے عالباً کسی فرد بشر کو انکار نہیں ہوگا کہ بدامنی اور بے اطمینانی معاشرے کے امن و امان اور معاشرے کے فلاح و سکون کے لیے زہر قاتل ہیں ۔ جو معاشرہ مامون نہ ہو ، جس معاشرے اور سماج میں ہروقت اپنی جان و مال کی فکراور اس کے بارے میں خطرہ لگارہتا ہو اور جہاں انسان ہر لمحہ اپنی عزت و آبرو کے بارے میں مختلف اندیشوں سے دوچار ہو، جہاں ڈر کے بارے آدمی اپنے ہی گھر میں سکون و چین سے نہ رہا ہو ، وہاں علمی ترقی رک جاتی ہے، تہذیب و تمدن انحطاط پذیر ہونے لگتے ہیں ، اخلاقی پستی پیدا ہونے لگتی ہے' کرپشن اور اخلاقی گرواٹ اس سوسائٹی میں اپنا گھر بناتی ہے، مکرو فریب، جعل سازی، دھوکہ دہی، جھوٹ جیسی بیماریاں پھر اس قوم کا شعار بن جاتی ہیں ۔ نیکی معدوم اور بدی عام ہونے لگتی ہے، خوشامدی اور چاپلوسی کو ڈپلومیسی سمجھا جاتا ہے اور پھر یہی عدم تحفظ کا احساس ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتاہے۔ اس وقت اگر ہم اپنے چہارجانب نظر دوڑائیں یہی صورت حال ہمارے ساتھ درپیش ہے کہ ہم بدامنی کا شکار ہیں ، ہماری زندگیوں کا سکون ہی غارت ہے ،اسی بدامنی کی بنا پر نہ ہم دینی اعتبار سے ترقی کررہے ہیں نہ دنیوی اعتبار سے۔ اگر دینی اعتبار سے ترقی کرکے اپنی ا?خرت سنوارنا چاہتے ہیں اور دینوی اعتبار سے اقوام عالم کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے لیے ایک پرامن معاشرہ تشکیل دینا ہوگا۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو نہ صرف امن آشتی کا ضامن ہے بلکہ امن و سلامتی اس کی رگ رگ میں داخل ہے۔ اگر قرآن و حدیث سے متعلق تمام لٹریچر اور چودہ سو سالہ اسلامی تاریخی لٹریچر کو کھنگال کر دیکھا جائے تو صرف یہ دو الفاظ ملتے ہیں (،) مومن ، (،) مسلم دیکھا جائے تو یہ دونوں تعبیریں مذہب اسلام کی امن پسندی کا مظہر ہیں ۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے ہمیشہ قتل و غارت اور بدامنی کے اسباب و علل پر کھل کر بحث کرتا ہے اور پھر اسکے علاج کی جانب بھی بہت ہی عمدگی کے ساتھ ا?مادہ کرتاہے۔ عرب کی جاہلی سوسائٹی مثال ہمارے سامنے ہیں ۔ اگر اہم بھی اپنے معاشرے میں امن چاہتے ہیں توضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انہی اسلامی تعلیمات کی جانب رجوع کریں تاکہ امن قائم کرنے میں کامیاب ہوسکیں ۔(یو این این) |
Bookmarks