برکھا بھی ہو لبوں پہ ذرا پیاس بھی رہےپھر سے فریب دے کہ کوئی آس بھی رہے
مدت سے انتظار تھا اپنا بہت مگرخود سے لپٹ کے رونا ہمیں راس بھی رہے
تُو لاکھ دور دور سے دیکھے ہمارے خواباپنا وہی لگے ہے کہ جو پاس بھی رہے
اک ہو مکاں ہماری تمنا میں مضطرباور دسترس میں اپنی ، یہ بن باس بھی رہے
خوشیوں کی کیا دلیل ہوں مجبور قہقہےہنسنے لگیں تو درد کا احساس بھی رہے
ہر حرفِ اعتبار لٹانے کے بعد بھییہ کیا ہوا ، فریبِ غم و یاس بھی رہے٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks