وصل کا عالم رہا ہے ہجر کے ماروں کے بیچ
تُو نظر آتا رہا ہے رات بھر تاروں کے بیچ
راکھ ہو جاتے ہیں اپنے شوق میں اہل جنوںپھول الفت کے کھلا کرتے ہیں انگاروں کے بیچ
کو بہ کو رسوائیاں دیتی ہیں دل کو حوصلےمنزلیں خود چل کے آ جاتی ہیں دیواروں کے پیچ
خود فریبی حد سے باہر بھی تو کچھ اچھی نہیںہاں دکھائی دے رہی ہے تیرے انکاروں کے بیچ
ساری دنیا ایک جانب اور تو ہے اک طرفدیکھتے رہتے ہیں تجھ کو پیار سے ساروں کے بیچ٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks