تعارف


نام ونسب،خاندان


عثمان نام،ابو عبداللہ اورابوعمر کنیت،ذوالنورین لقب، والد کا نام عفان،والدہ کا نام ارویٰ تھا، والد کی طرف سے پورا سلسلہ نسب یہ ہے،عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف بن قصی القرشی،والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے، ارویٰ بنت کریزبن ربیعہ بن حبیب بن عبدشمس بن عبدمناف، اسی طرح حضرت عثمان ؓ کا سلسلہ پانچویں پشت میں عبد مناف پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے،حضرت عثمان ؓ کی نانی بیضا ام الحکیم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں اس لئے وہ ماں کی طرف سے حضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے قریشی رشتہ دار ہیں،(فتح الباری کتاب المناقب) آپ کو ذوالنورین (دونوں نوروں والا) اس لئے کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوصاحبزادیاں یکے بعد دیگر ے ان کے نکاح میں آئیں۔
حضرت عثمان ؓ کا خاندان ایام جاہلیت میں غیر معمولی وقعت واقتدار رکھتا تھا ،آپ کے جد اعلی امیہ بن عبدشمس قریش کے رئیسوں میں تھے،خلفائے بنوامیہ اسی امیہ بن عبد شمس کی طرف سے منسوب ہوکر‘‘امویین’’ کے نام سے مشہور ہیں،عقاب یعنی قریش کا قومی علم اسی خاندان کے قبضہ میں تھا،جنگ فجار میں اسی خاندان کا نامور سردار حرب بن امیہ سپہ سالار اعظم کی حیثیت رکھتا تھا، عقبہ بن معیط نے جو اپنے زور اثر اور قوت کے لحاظ سے اسلام کا بہت بڑا دشمن تھااموی تھا، اسی طرح ابوسفیان بن حرب جنہوں نے قبول اسلام سے پہلے غزوہ بدر کے بعد تمام غزوات میں رئیس قریش کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا تھا اسی اموی خاندان کے ایک رکن تھے ؛غرض حضرت عثمان ؓ کا خاندان شرافت،ریاست اورغزوات کے لحاظ سے عرب میں نہایت ممتاز تھا اور بنو ہاشم کے سوا دوسرا خاندان اس کا ہمسرنہ تھا۔
حضرت عثمان ؓ واقعہ فیل کے چھٹے سال یعنی ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۴۷ برس قبل پیدا ہوئے، بچپن اورسن رشد کے حالات پردہ خفا میں ہیں ؛لیکن قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عام اہل عرب کے خلاف اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا، عہد شباب کا آغاز ہواتو تجارتی کاروبار میں مشغول ہوئے اور اپنی صداقت،دیانت اور راست بازی کے باعث غیر معمولی فروغ حاصل کیا ۔
اسلام اور ہجرت


اسلام
حضرت عثمان ؓ کا چونتیسواں سال تھا کہ مکہ میں توحید کی صدا بلندہوئی،گوملکی رسم ورواج اورعرب کے مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان ؓ کے لئے یہ آوازنامانوس تھی،تاہم وہ اپنی فطری عفت،پارسائی،دیانتداری اورراستبازی کے باعث اس داعئی حق کو لبیک کہنے کے لئے بالکل تیار تھے۔
حضرت ابوبکرصدیق ؓ ایمان لائے تو انہوں نے دین مبین کی تبلیغ واشاعت کو اپنا نصب العین قراردیا اوراپنے حلقہ احباب میں تلقین وہدایت کا کام شروع کیا،ایام جاہلیت میں ان سے اورحضرت عثمان ؓ سے ارتباط تھا اوراکثر نہایت مخلصانہ صحبت رہتی تھی،ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی،حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی گفتگوسے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے،ابھی دونوں بزرگ جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ خود سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر فرمایا،‘‘عثمان !خدا کی جنت قبول کر،میں تیری اورتمام خلق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوا ہوں،حضرت عثمان ؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ وصاف جملوں میں خداجانے کیا تاثیر بھری تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اوردست مبارک میں ہاتھ دیکر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔
(اصابہ جلد ۸ تذکرۃ سعدی بنت کریز)

اس موقع پر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ حضرت عثمان ؓ کا تعلق اموی خاندان سے تھا جو بنو ہاشم کا حریف تھا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کو اس لئے خوف وحسد کی نگاہ سے دیکھتا تھا کہ اس طریقہ سے عرب کی سیادت کی باگ بن امیہ کے ہاتھ سے نکل کر بنو ہاشم کے دست اقتدار میں چلی جائے گی، یہی وجہ تھی کہ عقبہ بن ابی معیط اورابوسفیان وغیرہ اس تحریک کے دبانے میں نہایت سرگرمی سے پیش پیش تھے ؛لیکن حضرت عثمان کا آئنہ دل خاندانی تعصب کے گردوغبار سے پاک تھا، اس لئے اس قسم کی کوئی پیش بینی ان کی صفائے باطن کو مکدر نہ کرسکی، انہوں نے نہایت آزادی کے ساتھ اپنے خاندان کے خلاف اس زمانہ میں حق کی آواز پر لبیک کہا جبکہ صرف پینتیس یا چھتیس زن و مرد اس شرف سے مشرف ہوئے تھے۔
شادی
قبول اسلام کے بعد حضرت عثمان ؓ کو وہ شرف حاصل ہوا جو ان کی کتاب منقبت کا سب سے درخشاں باب ہے،یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فرزندی میں قبول فرمایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منجھلی صاحبزادی رقیہ ؓ کا نکاح پہلے ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر اسلام کے بعد عتبہ کے باپ ابو لہب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی عداوت ہوگئی تھی کہ اس نے اپنے بیٹے پر دباؤ ڈال کر طلاق دلوادی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبزادی ممدوحہ کا دوسرا نکاح حضرت عثمان ؓ سے کردیا، حضرت عثمان ؓ کی اس شادی کے متعلق بعض لغو اور بے ہودہ روایتیں کتابوں میں ہیں،مگر وہ تمام ترجھوٹی ہیں اورمحدثین نے موضوعات میں ان کا شمار کیا ہے۔
حبشہ کی ہجرت
مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کے غیظ وغضب کی آگ روز بروز زیادہ مشتعل ہوتی جاتی تھی، حضرت عثمان ؓ بھی اپنی وجاہت اورخاندانی عزت کے باوجود عام بلاکشان اسلام کی طرح جفا کاروں کے ظلم وستم کا نشانہ تھے،ان کو خود ان کے چچانے باندھ کر مارا،اعزہ واقارب نے سرد مہری شروع کی اوررفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اورجفا کاری یہاں تک بڑھی کہ وہ ان کی برداشت سے باہر ہوگئی اوربالآخر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ سے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ ؓ کو ساتھ لے کر ملک حبش کی طرف روانہ ہوگئے؛چنانچہ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق وصداقت کی محبت میں وطن اوراہل وطن کو چھوڑ کر جلاوطن ہوا۔
ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا کچھ حال معلوم نہ ہوسکا اس لئے پریشان خاطر تھے، ایک روز ایک عورت نے خبردی کہ اس نے ان دونوں کو دیکھا تھا اتنا معلوم ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان عثمان اول من ھاجر باھلہ من ھذہ الامۃ،

( اصابہ جلد۸ تذکرۂ رقیہ ؓ)

یعنی اس میری امت میں عثمان ؓ پہلا شخص ہے جو اپنے اہل وعیال کو لے کرہجرت کی۔
حضرت عثمان ؓ اس ملک میں چند سال رہے ،اس کے بعد جب بعض اورصحابہ ؓ قریش کے اسلام کی غلط خبر پاکر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان ؓ بھی آگئے،یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے، اس بنا پر بعض صحابہ پھر ملک حبش کی طرف لوٹ گئے،مگر حضرت عثمان پھر نہ گئے۔
مدینہ کی طرف
اسی اثنا میں مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہوگیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی ہجرت کا ایماء فرمایا، تو حضرت عثمان ؓ بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے اورحضرت اوس بن ثابت ؓ کے مہمان ہوئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اورحضرت اوس بن ثابت ؓ میں برادری قائم کردی۔

(طبقات قسم اول جز ۳ : ۳۸)

اس مواخات سے دونوں خاندانوں میں جس قدر محبت اوریگانگت پیدا ہوگئی تھی اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت پر حضرت حسان بن ثابت ؓ تمام عمر سوگوار رہے اور ان کا نہایت پردرد مرثیہ لکھا۔
بیررومہ کی خریداری
مدینہ آنے کے بعد مہاجرین کو پانی کی سخت تکلیف تھی تمام شہر میں صرف بیررومہ ایک کنواں تھا جس کا پانی پینے کے لائق تھا؛لیکن اس کا مالک ایک یہودی تھا اور اس نے اس کو ذریعہ معاش بنا رکھا تھا، حضرت عثمان ؓ نے اس عام مصیبت کو دفع کرنے کے لئے اس کنوئیں کو خرید کروقف کردینا چاہا، سعی بلیغ کے بعد یہودی صرف نصف حق فروخت کرنے پر راضی ہوا،حضرت عثمان ؓ نے بارہ ہزار درہم میں نصف کنواں خریدلیا اورشرط یہ قرار پائی کہ ایک دن حضرت عثمان کی باری ہوگی اور دوسرے دن اس یہودی کے لئے یہ کنواں مخصوص رہے گا۔
جس روز حضرت عثمان ؓ کی باری ہوتی تھی اس روز مسلمان اس قدر پانی بھر کر رکھ لیتے تھے کہ دودن تک کے لئے کافی ہوتا تھا،یہودی نے دیکھا کہ اب اس سے کچھ نفع نہیں ہوسکتا تو وہ بقیہ نصف بھی فروخت کرنے پر راضی ہوگیا،حضرت عثمان ؓ نے آٹھ ہزار درہم میں اس کو خرید کر عام مسلمانوں کے لئے وقف کردیا، اس طرح اسلام میں حضرت عثمان ؓ کے فیض کرم کا یہ پہلا ترشح تھا، جس نے توحید کے تشنہ لبوں کو سیراب کیا۔
فجزاہ اللہ خیر الجزاء







Similar Threads: