ذہن پر اس طرح سے چھائے ہو
گاہ پیکر ہو گاہ سائے ہو
بھول جانے کی آرزو کی ہے
اور شدت سے یاد آئے ہو
یوں بھی ہونے لگا جنوں میں کبھیمیرے ہونٹوں سے مسکرائے ہو
کس طرح میں تمہیں چھپا رکھوںتم مری روح میں سمائے ہو
کیسے مانوں کہ تم نہیں میرےکیسے کہہ دوں کہ تم پرائے ہو
میں سمندر کے پار کیا آؤںتم تو اک ساحلی سرائے ہو٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks