جمعہ
دن رات کی پانچوں نمازیں فرض ہیں جن کے باجماعت پڑھنے کا حکم ہے،ان کے علاوہ سنن ونوافل جو انفرادی طورپر ہی پڑھے جاتے ہیں، ان سب کے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اورمعمولات سابق میں ذکر کئے جاچکے، ان کے علاوہ چند نمازیں اورہیں جو صرف اجتماعی طورپر ہی ادا کی جاتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص نوعیت اورامتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا گویا شعار ہیں، ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار ہے اور عیدالفطرو عیدالاضحی کی نمازیں ہیں جو سال میں ایک دفعہ ادا کی جاتی ہیں، پانچوں وقت کی فرائض کوجماعت سے ادا کرنے میں جو مصالح اورمنافع ہیں وہ سب کے سب وسیع تر پیمانے پر جمعہ اورعیدین کی نمازوں سے بھی حاصل ہوتے ہیں اوران کے علاوہ کچھ اورحکمتیں اور مصلحتیں بھی ہیں جو صرف ان ہفتہ وار اورسالانہ اجتماعی نمازوں ہی سے وابستہ ہیں۔
جمعہ کے دن کی تعیین
شہر میں نماز کی اشاعت کے لیے یعنی اجتماعی عبادت کے لیے چونکہ روزانہ لوگوں کا جمع ہونا مشکل امر تھا، اس لیے اس کے لیے کسی مدت کی تعیین ضروری ہے، یہ مدت نہ بہت مختصر ہونی چاہئے ،نہ بہت لمبی،کیونکہ مدت اگر مختصر ہوگی تو لوگوں کو پریشانی ہوگی اورمدت لمبی ہوگی تو مقصد فوت ہوجائے گا یعنی نماز کی شہر میں اشاعت خاطر خواہ نہیں ہوگی؛ لہٰذاکوئی بین بین مدت ہونی چاہئے اور وہ ہفتہ کی مدت ہے ،عرب و عجم میں اوراکثر مذاہب میں یہ مدت مستعمل ہے اور وہ اس مقصد کے لیے کار آمد بھی ہے، اس لیے اجتماعی عبادت کے لیے ہفتہ واری اجتماع طے کیا گیا ہے۔
رہا دن کی تعیین کا مسئلہ :یعنی ہفتہ کے سات دنوں میں سے کونسا دن اجتماعی عبادت کے لیے مقرر کیا جائے؟ تو اس میں اختلاف ہوا ہے: یہود نے ہفتہ کادن پسند کیا ہے اورعیسائیوں نے اتوار کا اوراس انتخاب کی وجوہ ان لوگوں کے ذہنوں میں تھیں : یہود کا خیال تھا کہ جمعہ کے دن اللہ تعالی تخلیق کائنات کے عمل سے فارغ ہوئے ہیں اوربار (ہفتہ)کا دن بے باررہا ہے، اس لیے اس دن کا روبار بند رکھنا چاہئے اوراللہ کی عبادت میں مشغول ہونا چاہئے اورعیسائیوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اتوار کے دن تخلیق کا عمل شروع ہوا ہے؛ اس لیے شکر وامتنان کی بجا آوری کے لیے وہی دن موزوں ہے (وجوہ ترجیح کا بیان بطور مثال ہے، ورنہ معلوم نہیں تشریع کے وقت موسیٰ اورعیسیٰ علیہماالسلام کے صحابہ کے ذہنوں میں کیا کیا وجوہ ترجیح ہونگی)۔
مگر اللہ تعالی نے اس امت کو ایک عظیم علم سے سرفراز فرمایا یعنی انہوں نے یہ بات سمجھ ہی لیا کہ سب سے بہترین دن ،جمعہ کا دن ہےاور یہ بات اللہ تعالی نے اولا صحابہ پر کھولی، ان کو جمعہ کی فضیلت الہام فرمائی، چنانچہ ہجرت سے پہلے مدینہ منوررہ میں صحابہ نے سب سے پہلے اجتہاد سے جمعہ قائم فرمایا، ابوداؤد شریف،باب الجمعۃ فی القری، حدیث نمبر:۹۰۳ میں روایت ہے کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب بھی جمعہ کی اذان سنتے تھے تو حضرت اسعد بن زرراہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا ئے خیر کرتے تھے، ان کے صاحبزادے عبدالرحمن نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ حضرت اسعد ہی نے سب سے پہلے مسلمانوں کو جمع کرکے فلاں مقام میں جمعہ قائم کیا ہے؛ جبکہ مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد کل چالیس تھی۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت اسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ صحابی ہیں، مدینہ میں اسلام کی اشاعت میں ان کی مساعی جمیلہ کا بڑا حصہ ہے، ان کی وفات ہجرت کے بعد جلدی ہوگئی ہے اس لیے تاریخ اسلامی میں گمنام ہیں، انہوں نے ایک مرتبہ مسلمانوں کو مدینہ سے باہر ایک باغ میں جمع کیا، تاکہ پتہ چلے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟ اوروہ کس حال میں ہیں؟ جب سب حضرات جمع ہوئے تو مسلمانوں کی تعداد توقع سے زیادہ تھی، سب ایک دوسرے سے مل کر خوش ہوئے، حضرت اسعدؓ نے ایک بکراذبح کرکے سب کی دعوت کی،اتفاق سے یہ جمعہ کا دن تھا، کھانا کھا کر سب نے جماعت سے دوگانہ شکرادا کیا اورمشورہ ہوا کہ آئندہ بھی ہفتہ میں ایک بار جمع ہونا چاہئے، تاکہ ایک دوسرے کے احوال کا پتہ چلے، پھر یہ بات زیر غورآئی کہ کس دن جمع ہونا چاہئے؟ سب نے جمعہ کے دن کی رائے دی اوروجہ یہ بیان کی ہم اہل کتاب سے پیچھے کیوں رہیں، دین کے کاموں میں ہمیں ان سے ایک دن آگے رہنا چاہئے، اس طرح جمعہ کے دن کا انتخاب عمل میں آیا۔
پھر اللہ تعالی نے یہ علم آنحضرت ﷺ پر کھولا، مصنف ابن ابی شیبہ، باب فضل الجمعۃويومها، حدیث نمبر:۵۵۶۰ میں روایت ہے: آنحضرت ﷺ نے فرمایا:جبریل میرے پاس آئے ان کے ہاتھ میں سفید آئینہ جیسی کوئی چیز تھی، اس میں ایک سياہ نقطہ تھا، میں نے پوچھا: جبرئیل! یہ کیا ہے؟ فرمایا: یہ جمعہ ہے، میں نے پوچھا:جمعہ کیا ہے؟ فرمایا: آپﷺ کے لیے اس میں خیر ہے، میں نے پوچھا: اس میں کیا خیر ہے؟ فرمایا: وہ آپ ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کی امت کے لیے روز عید ہے اوریہود ونصاری تمہارے پیچھے ہیں یعنی ان کی عبادت کے دن بعد میں آرہے ہیں، میں نے پوچھا: اس دن میں کیا خصوصیت ہے؟ فرمایا: اس میں ایک ساعتِ مرجوہ ہے(پھر اس کی تفصیل ہے جو آگے آرہی ہے) میں نے پوچھا: اس میں یہ سیاہ نقطہ کیا ہے؟ فرمایا: یہی وہ ساعتِ مرجوہ ہے، جو جمعہ کے دن میں ہوتی ہے اوریہ سیدالایام ہے، قیامت کے دن ہم اس کو "یوم المزید" کہیں گے ( پھر مشک کے ٹیلوں والی جنت میں جمعہ کے دن دربار خداوندی کا تذکرہ ہے اور حضرت جبرئیل نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اس دن میں اللہ تعالی جنتیوں کو کس طرح مزید نعمتوں سے نوازیں گے۔
جمعہ کے دن کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان سارے دنوں میں جن میں آفتاب نکلتا ہے (ہفتہ کے سات دنوں میں) سب سے بہتر اوربرتر جمعہ کا دن ہے، جمعہ ہی کے دن آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے پیدا کیا اورجمعہ ہی کے دن وہ جنت میں داخل کئے گئے اور جمعہ ہی کے دن وہ جنت سے باہر کرکے اس دنیا میں بھیجے گئے(جہاں ان سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا) اورقیامت بھی خاص جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۱؎۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کسی مسلمان بندے کوحسن اتفاق سے خاص اس گھڑی میں خیر اوربھلائی کی کوئی چیز اللہ تعالی سے مانگنے کی توفیق مل جائے تو اللہ تعالی اس کو عطا ہی فرمادیتا ہے۲؎۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح پورے سال میں رحمت وقبولیت کی ایک خاص رات(شب قدر) رکھی گئی ہے جس میں کسی بندے کو اگر توبہ واستغفار اوردعا نصیب ہوجائے تو اس کی بڑی خوش نصیبی ہے اوراللہ تعالی سے قبولیت کی خاص توقع ہے اسی طرح ہر ہفتے میں بھی جمعہ کے دن رحمت وقبولیت کی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے اگر اس میں بندے کو اللہ تعالی سے دعا کرنا اورمانگنا نصیب ہوجائے تواللہ تعالی کے کرم سے قبولیت کی امید ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ نے حضرت عبداللہ بن سلام اورکعب بن احبار ؓ دونوں سے نقل کیا ہے کہ جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کا ذکر تورات میں بھی ہے اور معلوم ہے کہ یہ دونوں حضرات تورات اورکتب سابقہ کے بہت بڑے عالم تھے۳؎۔
(۱)مسلم، باب فضل يوم الجمعة، حدیث نمبر:۱۴۱۱۔ (۲)مسلم، في الساعة التي في يوم الجمعة، حدیث نمبر:۱۴۰۷۔ (۳)ابوداود، باب فضل يوم الجمعةوليلةالجمعة، حدیث نمبر:۸۸۲۔
جمعہ کے دن کی سنتیں
(۱)غسل کرنا اورجہاں تک ہوسکے صفائی کا خوب خیال رکھنا۱؎ (۲)اچھے کپڑے پہننا۲؎ (۳)تیل اورخوشبو لگانا۳؎ (۴)مسواک کرنا۴؎ (۵)ناخن کاٹنا۵؎ (۶)زیرِناف ،مونچھ اوربغل کے بال صاف کرنا۶؎ (۷)نمازجمعہ کے لیے جلدی جانا اورمسجد میں پہنچ کر بیٹھے ہوئے لوگوں کو پھلانگ کر نہ جانا۷؎ (۸)نماز جمعہ اول وقت میں پڑھنا۸؎ (۹)امام کے قریب بیٹھنا۹؎ (۱۰)امام کے لیے جمعہ کی نماز کی پہلی رکعت میں سورہ جمعہ اوردوسری میں سورہ منافقون یا پہلی میں "سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" اور دوسری میں "هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ" پڑھنا۱۰؎ (لیکن اسی کو لازم نہ کرے)(۱۱)جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورہ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دھر پڑھنا۱۱؎ (لیکن ہمیشہ کا معمول نہ بنائے) (۱۲)والدین کے قبر کی زیارت کرنا۱۲؎ (۱۳)نماز سے قبل اوربعد کی تمام سنن ونوافل ادا کرنا۱۳؎ (۱۴)سورہ کہف پڑھنا۱۴؎ (۱۵)درود شریف کی کثرت کرنا۱۵؎۔ حوالہ
خطبہ کی سنتیں
(۱)خطیب صاحب کا پاکی کی حالت میں ہونا یعنی بے وضو یا جنبی نہ ہونا۱؎ (۲)خطبہ منبر پر کھڑے ہوکر دینا۲؎ (۳)خطبہ شروع کرنے سے پہلے منبر پر بیٹھنا۳؎ (۴)لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر دینا۴؎ (۵)جب خطيب منبر پر بیٹھ جائے توموذن صاحب كا ان كے سامنے كھڑے ہوكر اذان دينا۵؎ (۶)دوخطبوں کا ہونا اور پہلا خطبہ پانچ چیزوں: خدا کی حمد اور اس کی تعریف ،کلمہ شہادت، درودشریف، لوگوں کووعظ و نصیحت اورقرآنی آیت پر مشتمل ہو اوردوسرا خطبہ اللہ کی حمد وثناء درود شریف سارے مومنین و مومنات کے لیے مغفرت کی دعا، نعمتوں کو جاری کرنے ،مصائب کو دور کرنے، دشمنوں کے خلاف مددکرنے، امراض سے شفا کے طلب اوراستغفار پر مشتمل ہونا۶؎ (۷)دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنا۷؎ (۸)خطبہ اتنی بلند آواز سے دینا کہ لوگوں کو سنائی دے۸؎ (۹)خطبہ کو زیادہ لمبا نہ کرنا۹؎حوالہ
جمعہ کے دن قبولیتِ دعاء کا وقت اور اس کی تعیین
جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کے وقت کی تعیین وتخصیص میں شارحین حدیث نے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں ان میں سے دو ایسے ہیں جن کا صراحۃ ً یا اشارۃ بعض احادیث میں ذکر ہے صرف وہی دو یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔
(۱)جس وقت امام خطبہ کے لیے ممبر پر جائے اس وقت سے لیکر نماز کے ختم ہونے تک جو وقت ہوتا ہے بس یہی وہ ساعت اجابت (قبولیت کی گھڑی) ہے اس کا حاصل یہ ہوا کہ خطبہ اورنماز کا وقت ہی قبولیت دعا کا خاص وقت ہے۱؎۔
(۲)وہ گھڑی عصر کے بعد سے لیکر غروب آفتاب تک کا وقفہ ہے۲؎۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ "حجۃ اللہ البالغہ" میں یہ دونوں قول ذکر فرماکر اپنا خیال یہ ظاہر فرمایا کہ: ان دونوں باتوں کا مقصد بھی حتمی تعیین نہیں بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ خطبہ اورنماز کا وقت چونکہ بندگان خدا کی توجہ الی اللہ اور عبادت ودعا کا خاص وقت ہے اس لیے اس کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ساعت اسی وقت میں ہو اوراسی طرح چونکہ عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت نزول قضا کا وقت ہے اوروہ پورے دن کا گویا نچوڑ ہے اس لیے اس وقت بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ساعت غالبا اس مبارک وقفہ میں ہو۳؎۔
بعض حضرات نے لکھا ہے کہ جمعہ کے دن کی اس خاص گھڑی کو اسی طرح اور اسی مصلحت سے مبہم رکھا گیا، جس طرح اورجس مصلحت سے شب قدر کو مبہم رکھا گیا ہے، پھر جس طرح رمضان المبارک کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں اورخاص کر ستائیسویں شب کی طرف شب قدر کے بارے میں کچھ اشارات بعض حدیثوں میں دئے گئے ہیں اسی طرح جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کے لیے نماز وخطبہ کے وقت اورعصر سے مغرب تک کے وقفہ کے لیے بھی احادیث میں اشارات دیئے گئے ہیں،تاکہ اللہ کے بندے کم از کم ان دو وقتوں میں توجہ الی اللہ اوردعا کا خصوصیت سے اہتمام کریں۴؎۔
(۱)مسلم، باب في الساعة التي في يوم الجمعة، حدیث نمبر:۱۴۰۹۔ (۲)ابو داود،بَاب الْإِجَابَةِ أَيَّةُ سَاعَةٍ هِيَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ، حدیث نمبر:۸۸۴۔ (۳)حجۃ اللہ البالغۃ، الجمعة:۱/۴۵۷۔ (۴)مرقاة المفاتيح، باب الجمعة:۵/۱۹۔
نمازِجمعہ کی فرضیت
رسول اللہ ﷺ نے پہلا جمعہ سنہ ۱/ھجری میں ادافرمایا ہے؛ چنانچہ ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ہجرت کے موقع سے آپﷺ مدینہ تشریف لاتے ہوئے پیر ،منگل اورچہارشنبہ کو قبا میں قیام فرمایا، جمعرات کو مسجد قبا کی بنیاد رکھی اورجمعہ کو وہاں سے روانہ ہوئے اور بنوسالم کے محلہ میں جمعہ کی نماز ادا فرمائی جبکہ ابھی مسجد نبوی کی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی؛ البتہ آپﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ ؓ نے مدینہ کے قریب قبیلہ بنو بیاض میں جمعہ قائم فرمایاتھا۔
(ابوداؤد، باب الجمعہ فی القری، حدیث نمبر:۹۰۳)
جمعہ کی نماز ہر مسلمان عاقل ،بالغ، آزاد ،مرد اورغیر معذور پر فرض ہے البتہ اس فرضیت سے چار قسم کے آدمی مستثنیٰ ہیں (۱)وه غلام جو کسی کا مملوک ہو (۲)عورت (۳)ایسا بچہ جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو(۴)بیمار ومعذور البتہ یہ لوگ بھی جمعہ کی نماز پڑھ لیں تو ظہر کی نماز ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گی اورجمعہ صحیح ہوجائے گی۔
جن لوگوں پر جمعہ فرض ہے ان لوگوں کے لیے اس کی سعی کرنا یعنی اس کو ادا کرنے کی کوشش کرنا واجب ہے۔
"فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ"۔
(الجمعہ:۹)
"عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّاأَرْبَعَةً عَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَوْامْرَأَةٌ أَوْصَبِيٌّ أَوْمَرِيضٌ"۔
(بوداؤد،الجمعۃ للمملوک والمراۃ، حدیث نمبر:۹۰۱)
"عن أَبِى الزِّنَادِ قَالَ كَانَ مَنْ أَدْرَكْتُ مِنْ فُقَهَائِنَا الَّذِينَ يُنْتَهَى إِلَى قَوْلِهِمْ فَذَكَرَ الْفُقَهَاءَ السَّبْعَةَ مِنَ التَّابِعِينَ فِى مَشْيَخَةٍ جُلَّةٍ سِوَاهُمْ مِنْ نُظَرَائِهِمْ أَهْلُ فَقْهٍ وَفَضْلٍ وَرُبَّمَا اخْتَلَفُوا فِى الشَّىْءِ فَأَخَذْنَا بِقَوْلِ أَكْثَرِهِمْ وَأَفْضَلِهِمْ رَأْيًا فَذَكَرَ مِنْ أَقَاوِيلِهِمْ أَشْيَاءَ ثُمَّ قَالَ: وَكَانُوا يَقُولُونَ إِنْ شَهِدَتِ امْرَأَةٌ الْجُمُعَةَ أَوْ شَيْئًا مِنَ الأَعْيَادِ أَجْزَأَ عَنْهَا قَالُوا: وَالْغِلْمَانُ وَالْمَمَالِيكُ وَالْمُسَافِرُونَ وَالْمَرْضَى كَذَلِكَ لاَجُمُعَةَ عَلَيْهِمْ وَلاَعِيدَ فَمَنْ شَهِدَ مِنْهُمْ جُمُعَةً أَوْعِيدًا أَجْزَأَ ذَلِكَ عَنْهُ"۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی،باب مَنْ لاَ جُمُعَةَ عَلَيْهِ إِذَا شَهِدَهَا، حدیث نمبر:۵۸۶۰)
ترکِ جمعہ پر وعیدیں
(۱)حضرت عبداللہ بن عمر اورحضرت ابوہریرہ ؓ عنہم سے روایت ہے کہ ہم نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ برسرمنبر فرمارہے تھے جمعہ چھوڑنے والے لوگ یا تو اپنی اس حرکت سے باز آئیں یا یہ ہوگا کہ ان کے اس گناہ کی سزا میں اللہ تعالی ان کے دلوں پر مہر لگادیگا؛ پھروه غافلوں ہی میں سے ہوجائیں گے(اوراصلاح کی توفیق سے محروم کردیئے جائیں گے ) ۱؎۔
(۲)حضرت ابوالجعد ضمری سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو آدمی بلاعذر تین جمعہ تساہل و غفلت سے چھوڑدیگا تو اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگادے گا(پھر وہ نیک عمل کی توفیق سے محروم ہی رہے گا ) ۲؎۔
(۳)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا جو شخص بغیر کسی مجبوری کے جمعہ کی نماز چھوڑے گا اوروہ اللہ کے اس دفتر میں جس میں کوئی رد وبدل نہیں ہوسکتا منافق لکھا جائیگا اوربعض روایات میں تین دفعہ چھوڑنے کا ذکر ہے۳؎۔
(۱)مسلم، التغليظ في ترك الجمعۃ، حدیث نمبر:۱۴۳۲۔ (۲)ابوداؤد،التشديدفي ترك الجمعة، حدیث نمبر:۸۸۸۔ (۳)مسند شافعی، من ترك الجمعة من غير ضرورة كتب منافقا في كتاب، حدیث نمبر:۲۸۱، جلدنمبر:۱/۲۸۷۔
Similar Threads:
Bookmarks