میں تو روز اکیلی رویا کرتی ہوں
روتے روتے اکثر سویا کرتی ہوں
خوفزدہ ہوں منزل کے اندیشوں سےراہوں میں دانستہ کھویا کرتی ہوں
پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میںچن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں
لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہتجگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں
صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخرات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں
کل کے داغ مٹانا کل پہ رکھا ہےآج تو آج کا دامن دھویا کرتی ہوں
سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میںتھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks