زخم کی گہرائی سے لپٹے رہے
رات بھی تنہائی سے لپٹے رہتے
سی کے اپنے لب ترے اعزاز میںجا بجا رسوائی سے لپٹے رہے
چاند میں دیکھا کئے چہرہ ترا
گونجتی شہنائی سے لپٹے رہے
وصل کی بد شکل تصویروں میں ہمہجر کی رعنائی سے لپٹے رہے
زندگی کے ساحلوں پر عمر بھربے بسی کی کائی سے لپٹے رہے
بجلیاں کوندیں جو تیری یاد کیخواب استقرائی سے لپٹے رہے٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks