پھر ہوائے نم میں خالی ہو گئے آنکھوں کے جام
دیکھ تُو آ کر ، گزاری کس طرح اک اور شام
کاغذی امید کی کشتی، حقیقت کا سفر
آگ میں چلنا پڑا اک خواب میں کر کے قیام
ضبط کا آنچل کبھی وابستگی کا پیراہنیاس میں لپٹا رہا جسمِ تمنا بس مدام
منزلِ نادیدہ کی جانب رواں تھے نیند میںاور غم کی سرزمیں کے خون آلودہ تھے گام
رات بھر رویا کروں یادوں کے بستر میں پڑےکروٹیں لے کر شبِ تیرہ کہاں ہو گی تمام٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks