تحریر ڈاکٹر نذیر مشتاق
کیا آپ کو باربار چھینکنا پڑتاہے ؟ یہ حساسیتِ بینی یعنی ناک کی الرجی ہوسکتی ہے۔کیا ا?پ کا دَ م گھٹتاہے، سانس لینے میں دشوار ی محسوس ہوتی ہے۔ شاید حساسیت کی وجہ سے پھیپھڑوں کی نالیاں متورم ہو چکی ہیں ۔

کیا آپ کے چہرے ، بازو،ٹانگوں یاجسم کے کسی اور حصہ پر سرخی (جلن اور ورم)چھائی ہوئی ہے ،یہ شاید جِلد کی حساسیت ہے۔

کیا چنے ، انڈے کی سفیدی یا پیسٹری کھانے کے بعد آپ کو اسہال استفراغ کی شکایت لاحق ہوگئییہ شاید غذائی حساسیت ہے۔

حساسیت کی ''غیر معروف ''دنیا میں داخل ہونے کے بعد یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حساسیت کرہّ ارض پر رہنے والے بنی نوع انسان کو بلالحاظ عمر ، رنگ و نسل ، مذہب ،فرقہ و جنس اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔یہ انسان کیلئے ایک مزمن اور ناراحت کنندہ مسئلہ ہے۔ ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ ہر پانچواں کشمیری کسی نہ کسی قسم کی حساسیت کا شکار ہے۔ اگر ا?پ حساسیت میں مبتلا ہیں یا اس کا شکار رہ چکے ہیں تو آپ بخوبی جانتے ہونگے۔ یہ انسان کو نیند جیسی نعمت سے محروم کرتی ہے۔وہ سکول،کالج ،دفتر یا گھروں میں اپنا کام تن دہی اور دلجمعی سے انجام نہیں دے سکتا۔ مشاغل اور سیر تفریح میں شامل ہونے سے کتراتاہے۔ گھر کے اندر یا باہر مجالس میں شمولیت سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ غرض انسان زندگی کی لذّتوں سے محروم ہو جاتاہے۔ اس کے باوجود بھی لوگ اسے نظر انداز کرتے ہیں اور اسے اہمیت نہیں دیتے اور اس بارے میں کسی دوسرے سے بات کرنایا تو ضروری نہیں سمجھتے یا جان بوجھ کر اسے صیغہ راز میں رکھتے ہیں یا اس ''راز'' کو عیاں کرنے سے شرماتے ہیں حالانکہ اپنی حساسیت کے بارے میں دوسروں سے بات چیت کرنا مدد گار اور سود مند ثابت ہوتاہے۔

خالقِ کائنات نے کارخانہ جسمِ انسانی کو اس قدر پیچیدہ بنایا ہے کہ ابھی تک ہزارہا رازِدروں سے پردہ نہیں آٹھایا جاسکاہے۔ انسانی جسم بعض چیزوں کے معاملے میں اس قدر حساس واقع ہوا ہے کہ ان کے چھوجانے یا جسم میں داخل ہو جانے سے ایک ردعمل پیدا ہوتاہے۔ اس ردعمل کو حساسیت یا الرجی کا نام دیا گیا ہے اور جو چیز یہ ردعمل پیداکرتی ہے ، اسے حساسیہ(الرجن)کہا جاتاہے۔یعنی حساسیت کا مطلب کسی جسمانی (ظاہری یا باطنی) یا ماحولیاتی شے کے لئے جسم کابدلا ہوا ردعمل ہے۔بالفاظ دیگر حساس افراد کے جسم میں پادتن ایمیونوگلوبن ای طبعی مقدار سے زیادہ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ انسانی جسم باہر سے داخل شدہ شئے کو ''دشمن'' تصور کرتاہے او راسکے مقابلہ کیلئے ا?ئی جی ای کو ا?مادہ کرتاہے۔حساسیہ (الرجن)اور ا?ئی جی ای کے درمیان تصاد م سے جو اثرات پیدا ہوتے ہیں وہ حساسیت کی علامات کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ شاید ا?پ کو معلوم نہ ہو کہ ایک چیز جو ا?پ کے جسم میں حساسیت پیدا کرے وہی چیزدوسرے کے جسم پر کوئی اثر نہ کرے۔ جب ہمارے جسم میں کسی بھی وجہ سے حساسیت شروع ہوتی ہے تو ایک کیمیائی مادہ ہسٹامین پیدا ہوتاہے جو حساسیت میں شدت کا باعث ہوتا ہے۔اسی لئے حساسیت کا توڑ کرنے کیلئے معالج انٹی ہسٹامینک دوائیاں تجویز کرتے ہیں تاکہ حساسیت کے علائم (مثلاً خارش)میں کمی واقع ہوسکے۔

سوال یہ ہے کہ کسی چیز کے ردعمل میں جسم طبعی مقدار سے زیادہ IGEکیوں پیداکرتاہے۔ اس کیلئے کئی عوامل اور محرکات ذمہ دار ہیں ۔

lاگر ا?پ کے والدین کسی قسم کی حساسیت کے شکار ہوں یا رہ چکے ہوں تو ا?پ کے حساسیت میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔بعض اوقات کوئی خاص حساسیت خاندانی یا موروثی ہوتی ہے۔تحقیق سے ثابت ہواہے کہ ایک سال سے کم عمر کے بچے عام غذا سے ایسی صلاحیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو تاا?خر عمر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ تاہم بچے دودھ اور انڈے جیسی غذاسے پیدا ہونے والی حساسیت سے چھٹکارہ پاسکتے ہیں ۔

ماحولیاتی آلودگی میں حساسیوں کی موجودگی انسانی جسم میں حساسیت کا باعث بنتی ہے۔ حساسیے سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں یا جسم کی جلد کو چھو سکتے ہیں یا آنکھوں سے ٹکرا کر حساسیت پیدا کرسکتے ہیں (جیسے گردوخاک،ریزہ گل، پھپھوند وغیرہ) یا غذا (انڈے کی سفیدی ، دودھ ، مونگ پھلی ، مچھلی ، گندم ، چاول)کے ساتھ جسم میں داخل ہوسکتے ہیں یا پھر تزریقی صورت (دوائیاں ، شہد کی مکھی کا ڈنک)میں واردِ جسم ہوسکتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو مختلف ذریعوں سے حساسیے کے ساتھ واسطہ پڑتاہے اور ایک فرد کو ایک چیز یا پھر ایک سے زیادہ چیزوں سے حساسیت ہوسکتی ہے۔غذا کی عدم برداشت اور غذا سے حساسیت دومختلف باتیں ہیں ۔ غذا کے حساسیت میں ہمارا نظامِ مدافعت اپنا ردّعمل ظاہر کرتاہے جبکہ غذا کی عدم برداشت میں ایسا نہیں ہوتا۔
حسا سیت کی علامات

کسی چیز سے حساسیت شروع ہوتے ہی جلد میں سوزش اور کھجلی شروع ہوتی ہے۔ جلد کا رنگ سرخی مائل ہوجاتاہے یا سرخ رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں ۔باربار چھینکنا ، ناک کا مسلسل بہنا یا بند ہونا ، عضلات اور جوڑوں کا درد ، سانس لینے میں دشواری ،گھٹن ، آنکھ اور ناک میں کھجلی ، دردِسر،ورم والتہاب، اسہال واستفراغ حساسیت کی علامات میں شامل ہیں ۔

حساسیت کے دوران اِن علامات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ سے واسطہ پڑسکتاہے اور حساسیت سے جو ردعمل ہوتاہے وہ تبِ کا ہی چنبل اور پتی کے علاوہ دمے کی شکل اختیار کرلیتاہے۔ علائم کا ظاہر ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ حساسیت جسم کے کس حصے میں شروع ہوئی ہے (جیسے جلد، ناک ، آنکھ یا معدہ یا انتڑیوں میں )'

''سردی زکام'' اور حساسیت میں کیا فرق ہے ؟ اکثر بیمار حساسیت میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی اپنے علائم کو زکام سے تعبیر کرتے ہیں ۔اگر حساسیت کا بروقت مناسب اور موزوں علاج نہ کیا گیا توانسان دمّہ، ناک کے ورم یا کان کی عفونت جیسی پیچیدگیوں میں مبتلا ہو سکتاہے ، اس لئے حساسیت اور ''زکام '' میں فرق کرنابے حد ضروری ہے۔زکام میں بخار بھی ہوسکتاہے مگرخالص حساسیت میں کبھی بخار نہیں ہوتاہے۔

حساسیت میں مبتلا افراد کی ناک اور آنکھوں میں خارش ہوتی ہے جبکہ ''سردی اور زکام ''میں ایسا نہیں ہوتا۔

زکام کے علائم سات سے دس دن تک رہتے ہیں جبکہ حساسیت ہفتوں ، مہینوں یا برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

اگر ناک کا بہنا یا بند ہو نا ہر سال ایک مخصوص موسم میں مقررہ ایام میں شروع ہوتاہو تو یہ حساسیت ہے۔حساسیت کی وجہ سے ناک کی اندرونی تہوں میں ورم اور التہاب پیدا ہونے سے جراثیموں اور وائرسوں کے لئے راہ ہموار ہوتی ہے۔ اسلئے حساسیت میں مبتلا افراد زکام کھانسی اور نظام تنفس کے دیگر حصوں کے انفکشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔
احتیاطی تدابیر:

اگر حساسیت میں مبتلا ہوجانے کے بعد آپ کو یہ علم ہو جائے کہ آپ کو کن کن چیزوں کے ساتھ حساسیت ہے تو ان سے بچنے یا دوررہنے کی ہرممکن کوشش کریں اور اگر یہ یقین نہ ہو کہ کس چیز سے حساسیت ہے تو سب سے پہلے اپنی غذا کا تجربہ کیجئے ،یہ پتہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کریں کہ کس قسم کی غذا سے حساسیت ہوتی ہے اور پھر دوبارہ اس غذا کا استعمال نہ کریں اگر جواب نفی میں مبتلا ہے تو تمباکو، سگریٹ یا چولہے کے دھوئیں سے اپنے کو بچالیں ۔ جانوروں کے (سمور)بالوں سے دور رہیں ۔

اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھئے ، ہر ہفتہ اپنے گھر کے ہر کمرے اور ہر حصے کی صفائی کریں ، کمروں سے فرش ہٹا کر دن بھر دھوپ میں رکھیں ۔ کمروں کی کھڑکیاں کھلی رکھیں تاکہ تازہ ہوا اور ا?فتاب کی شعاعیں کمروں میں داخل ہوسکیں ۔ اس سے کمرے کے کونوں ، کھدروں میں چھپے ہوئے کیڑے مکوڑے نابودہوجاتے ہیں ۔

اپنے تکیوں اور ''گدوں '' کے غلاف ایسے بنائیں کہ کیڑے مکوڑے اندر نہ جاسکیں ۔

پرانے فرنیچر اور صوفوں پر بیٹھنے یا سونے سے پرہیز کریں ۔ یا تو انہیں گھر سے باہر کردیں یا انکی مرمت کرکے بھرائی کریں ۔

جھاڑوں پھیرتے وقت یا ''ویکیو م''کلینر استعمال کرتے وقت منھ پر ماسک کا استعمال کریں ۔

اپنے گھر کی دیواروں کا کرم کش دوائیوں سے چھڑکا کیا کریں ۔ اسکے لئے پیشہ ورانہ افراد کی خدمات حاصل کریں ۔

گھر کے کسی حصے یا دیوار میں دراڑ اور نمی ظاہر ہو تو پانی میں بلیچنگ پا?ڈر حل کرکے ایک محلول تیار کریں اور اسے ان جگہوں پر چھڑکیں ۔

ریزہ گل اور ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لئے دوپہر کے بعد گھر میں رہنے کو ترجیح دیں ۔اس موسم میں سفید ے کے درختوں سے جو ''روئی کے گالے ''برستے رہتے ہیں و ہ بعض افراد میں شدید حساسیت پیدا کرسکتے ہیں اسلئے باہر جاتے وقت ماسک کا استعمال کریں یا کم از کم رومال سے منھ اور ناک کو ڈھانپ لیں ۔

ا?نکھوں پر دھوپ کا چشمہ لگاکر چلنے کو ترجیح دیں ۔

اس موسم میں صبح کے وقت ا?دھ گھنٹے کے لئے کھڑکیاں کھول کر پھر دوبارہ بند کریں تاکہ گرد وخاک ، ریزہ گل ، وغیرہ اندر داخل نہ ہوسکے۔
علاج:

ابھی تک کسی بھی قسم کی حساسیت کا کوئی مکمل علاج نہیں ہے۔ ضد حساسیت دوائیوں سے صرف ناراحتی اور علائم میں نمایاں کمی محسوس کی جاسکتی ہے۔حساسیت کا پتہ لگانے کے لئے جو آزمائشات انجام دئے جاتے ہیں وہ حد سے زیادہ مہنگے ہیں اور پھر ان کا کوئی دیر پا یا حتمی نتیجہ بھی نہیں نکلتاہے اسلئے اکثر مریض ان ا?زمائشیات کو انجام دینے سے کتراتے ہیں اور معالجوں کی تجویز کردہ دوائیوں پر ہی اکتفاکرتے ہیں ۔ حساسیت کا علاج صرف یہ ہے کہ ان چیزوں سے دور رہا جائے جن سے حساسیت پیدا ہونے کے امکانات ہوں یعنی حساسیت میں مبتلا مریض کو خود ہی اپنا معالج بننا پڑتاہے۔ چند اقسام کے ٹیکے ضرور دستیاب ہیں لیکن ادارہ عالمی صحت نے ترقی پذیر ممالک میں ان ٹیکوں کا استعمال کرنے سے منع کیاہے ، اس لئے فی الحال حساسیت کا کوئی خاص اور حتمی علاج موجود نہیں ہے ،صرف علامات کا علاج ممکن ہے۔ بصورت دیگر حساسیت ایک لاعلاج بیماری ہے ، ہاں اسے قابو میں رکھا جاسکتاہے تاکہ مریض ا?رام سے زندگی کے شب وروز گذار سکے۔ حال ہی میں دنیائے طب سے وابستہ ماہرین نے کچھ متبادل علاج پر تحقیق شروع کی ہے لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برا?مد نہیں ہوسکا ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ حساسیت میں غذا اور ذہنی دبا? کو بڑا دَخل ہوسکتاہے۔ اگر عام انسان ہر طرح سے اپنی صحت کا خیال رکھے تو حساسیت کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ورزش اور دماغ کو سکون پہنچانے کی کوشش ، مدافعتی نظام کو بہتر بنانا عام صحت پر اچھا اثر ڈالتاہے۔

اگر حساسیت کا حملہ اچانک(حاد)ہو تو فوری کسی ماہر معالج سے مشورہ کرنا ضروری ہے اور معالج کے مشورہ پر عمل کرکے اضطرابی حالت سے نمٹنے کے علاوہ ا?ئندہ ہنگامی صورت حال سے بھی نمٹنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

اپنی حساسیت کو پہچانئے اور اس بارے میں معالج سے مفصل جانکاری حاصل کریں تاکہ آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اپنی حساسیت کو نظر انداز نہ کریں اور نہ کسی وہم ڈر یا خوف میں مبتلا ہو جائیں ۔ آخرمیں ایک بات کہوں گا کسی سے کہئے گا نہیں ''ڈاکٹر جب کسی بیماری کی تشخیص دینے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو اسے ''الرجی''سمجھ کر علاج شروع کرتے ہیں ''۔(یو این این)



Similar Threads: