سوال کرتے اگر وہ جواب دیتا کوئی
ہر ایک زخم کا کیسے حساب دیتا کوئی
یہ ابجدِ غمِ جاناں تو ہو گئی ازبر
جہاں کی نوحہ گری پر کتاب دیتا کوئی
شبِ فراقِ مسلسل میں چشمِ تر اپنی
لگی کہاں کہ وہ آنکھوں کو خواب دیتا کوئی
ملا ہوا تھا گریباں بھی اس کے دامن سے
کیا اور میرے بدن پر نقاب دیتا کوئی
گمان ہوتا سفر میں چمن سے گزرے ہیں
کہ سوکھا ہی سہی ہم کو گلاب دیتا کوئی
چٹخ کے دھوپ میں راحت بدن کو ملنے لگی
تو کیسے چھاؤں کا آخر عذاب دیتا کوئی
ہمارے نام دعائیں اسی کو لگتی گئیں
تو بد دعا ہمیں خانہ خراب دیتا کوئی
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks