اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو موصل کے علاقے میں نینویٰ والوں کیطرف مبعوث فرمایا تھا۔ آپؑ نے انہیں اللہ کیطرف بلایا مگر انہوں نے آپکی تکذیب کی اور کفر و عناد میں اڑے رہے۔ جب ایک طویل مدت گزر گئی تو حضرت یونس علیہ السلام بستی سے نکل گئے اور لوگوں کو فرما گئے کہ تین دن بعد ان پر عذاب آ جاۓ گا۔
حضرت یونس علیہ السلام کی قوم وہ منفرد قوم ہے جس پر عذابَ الٰہی نازل ہوا تو انہوں نے توبہ کر لی اور ان سے عذاب کو دور کر دیا گیا ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" پھر کوئی بستی ایسی کیوں نہ ہوئی کہ ایمان لاتی تو اسے اسکا ایمان نفع دیتا، سواۓ یونس کی قوم کے، جب وہ ایمان لائی تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے ذلت کا عذاب دور کر دیا اور ایک مدت تک (فوائد دنیاوی سے) انکو بہرہ مند رکھا۔" (یونس، ۹۸)
جب حضرت یونس علیہ السلام بستی سے باہر تریف لے گئے تو قوم کو یقین ہو گیا کہ اب عذاب ضرور نازل ہو گا اور اس وقت اللہ پاک نے ان کے دلوں میں توبہ کیطرف توجہ پیدا فرما دی۔ انہیں اپنے نبی کےساتھ بدسلوکی پر ندامت ہوئی چنانچہ انہوں نے پھٹے پرانے کپڑے پہن لئے اور جانوروں کے بچوں کو انکی ماؤں سے الگ کر دیا اور پھر اللہ پاک سے رورو کر دعائیں کرنے لگے۔ مرد بھی روتے تھے ۔ عورتیں بھی، بچے بھی روتے تھےاور مائیں بھی۔ اونٹ بھی بلبلاتے تھے اور انکے جن بچوں کو الگ کر دیا گیا تھا وہ بھی۔ گائیں بھی رانبھتی تھیں اور بچھڑے بھی۔ بکریاں بھی منمناتی تھیں اور میمنے بھی۔ بہت رقت آمیز منظر تھا اور سوہنے اللہ پاک نے اپنی قدرت اور رحمت سے ان پر سے وہ عذاب ٹال دیا جو ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔
حضرت یونس علیہ السلام جب قوم سے دل برداشتہ ہو کر انکی توبہ کرنے سے پہلے ہی بستی سے نکل چکے تھے اور سمندر میں سفر کے لئے ایک کشتی میں سوار ہوۓ۔ کشتی لہروں میں ڈگمگانے اور ہچکولے کھانے لگی اور قریب تھا کہ ڈوب جاۓ، چنانچہ مسافروں نے مشورے سے طے کیا کہ قرعہ اندازی کریں اور جسکے نام کا قرعہ نکلے اسے کشتی سے سمندر میں پھینک کر بوجھ کم کریں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور بلاشبہ یونس نبیوں میں سے تھے جب وہ بھاگ کر کشتی میں پہنچے اور پھر قرعہ اندازی ہوئی تو یہ مغلوب ہو گئے، سو انہیں مچھلی نے نگل لیا اور وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے۔" (الصافات ، ۱۳۹۔۱۴۲)
پس جب انہوں نے قرعہ ڈالا تو وہ اللہ کے نبی حضرت یونس علیہ السلام کے نام کا نکلا۔ لوگ ان کے زہد و تقویٰ سے واقف تھے اسلئے انہی دریا میں پھینکنا پسند نہ کیا اور دوبار قرعہ ڈالا مگر پھر انہی کا نام آیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے انکو منع کیا اور تیسری بار قرعہ ڈالا تب بھی آپؑ کا نام ہی نکلا کیونکہ یہی اللہ پاک کی خاص مشیت تھی۔ غرض تین بار آپؑ کا نام آنے پر آپکو سمنر میں پھینک دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بحیرہ روم میں ایک بڑی مچھلی بھیج دی جو آپؑ کو نگل گئی۔ اللہ پاک نے اس مچھلی کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ حضرت یونس علیہ السلام کو گوشت نہ کھاۓ اور نہ ہی انکی ہڈی توڑے کیونکہ آپؑ اس مچھلی کا رزق نہیں تھے۔
جب آپؑ مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گئے تو آپ نے سوچا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں لیکن جب اعضاء کو حرکت دی تو حرکت ہوئی۔ تب آپؑ کو معلوم ہوا کہ آپ ابھی تک زندہ ہیں۔ چنانچہ اللہ کے لئے سجدہ میں گر گئے اور فرمایا: "یا رب! میں نے ایسی جگہ کو تیرے لئے مسجد بنایا ہے کہ اسطرح کے مقام پر کسی نے تیری عبادت نہیں کی۔"
پس اس مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو لیکر تمام سمندروں کا چکر لگایا۔ اور گہرے سمندروں میں گھومنے لگی۔ آپ نے مچھلیوں کو رحمان کی تسبیح کرتے سا اور کنکریوں سے اللہ کی تسبیح سنی۔ اور اس مقام پر حضرت یونس علیہ السلام نے ان الفاظ میں اپنے پروردگار کو پکارا:
" لا الٰہ الا انت سبحنک، انی کنت من الظٰلمین"
ترجمہ: "(اے اللہ!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے (اور) بے شک میں قصوروار ہوں۔" (الانبیاء، ۸۷)
پس اللہ پاک نے حضرت یونس علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ، " ہم نے انکو فراح میدان میں ڈال دیا جبکہ وہ بیمار تھےـ" (الصافات،۱۴۵)
وہ بیمار تھے یعنی کمزور تھے سے مراد ہے کہ وہ نوزائیدہ بچے جیسے تھے۔
"پھر اگر وہ اللہ کی پاکیزگی بیان نہ کرتے تو اس روز تک اسی کے پیٹ میں رہتے جبکہ لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔" (الصافات،۱۴۴)
اللہ پاک فرماتا ہے: " پھر ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور انکو غم سے نجات بخشی اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔ (الانبیاء، ۸۸) بحوالہ قصص الانبیاء
Similar Threads:
Bookmarks