یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا

پیمانِ ترکِ جاہ لیا پیرِ دیر نے
پیمانہ دے کے بادہء عنبر شمیم کا