نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے آپ پھیر دیجے وہ مرا سلام اُلٹا
مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تُو نے اسے لفظِ رام الٹا
تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانوں گا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام اُلٹا
فقط اس لفافے پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشا یہ ترا ہی نام الٹا
سوچئے توسہی ہٹ دھرمی نہ کیجئے صاحب
چٹکیوں میں مجھے کب آپ اڑا سکتے ہیں
حضرت دل تو بگاڑ آئے ہیں اس سے لیکن
اب بھی ہم چاہیں تو پھر بات بنا سکتے ہیں
شیخی اتنی نہ کر اے شیخ کہ رندان جہاں
انگلیوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks