زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
ہر چند ترے ظلم کی کچھ حد نہیںظالم
پر ہم نے کسی شخص کو نالاں نہیں رکھا
چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی ہے ہو نہیں سکتا
اپنی آنکھوں میں کوندگئی بجلی سی
ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا
درد یہ ہے ہاتھ اگر رکھا ادھر
واں سے تب سرکا ادہار دکھنے لگا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
دیکھاہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ
ایمانکی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
جو بھلے ہیں وہ بروں کو بھی بھلا کہتے ہیں
نہ برا سنتے ہیں اچھے نہ برا کہتے ہیں
چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ میرے گھر
سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گیا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks