گرچہ ہیں آبلہ پا دشت جنوں کے اے خضر
تو بھی تیار ہیں ہم مرحلہ پیمائی کو
اک بگولا جو پھرا ناقہ لیلی کے گرد
یاد کر رونے لگی اپنے وہ صحرائی کو
مست جاروب کشی کرتے ہیں یاں پلکوں سے
کعبہ پہنچے ہے مے خانے کی ستھرائی کو
انشا کو لذت اس کی جوانی کی حسن کی
ہے زور طِفلگی کے بھی ایام سے لذیذ
آ جاوے پختگی پہ جو میوہ درخت کا
وہ کیوں نہ ہو بھلا ثمر خام سے لذیذ
نالے پہ میرے نالے کرنے لگی ہے اب تو
بلبل نے یہ نکالا نخرا نیا چمن میں
کچھ اوس سی گلوں پر کیوں پڑ گئی یکایک
دیکھو تو کس نے کھولے بند قبا چمن میں
ایسی ہوا چلی ہے تو بھی نہ پوچھے کوئی
کوئل کا جاوے کوا گر منہ چڑا چمن میں
داؤدی آج پہنے عیسیٰ کا پیرہن ہے
ٹک سیر کیجئے عالم مہتاب کے چمن میں
There are currently 9 users browsing this thread. (0 members and 9 guests)
Bookmarks