لے کے میں اوڑھوں ، بچھاؤں یا لپیٹوں کیا کروں؟
روکھی پھیکی ایسی سوکھی مہربانی آپ کی
گر نازنیں کے کہنے سے مانا ہو کچھ بُرا
میری طرف کو دیکھئے! میں نازنیں سہی
منظور دوستی جو تمہیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضائقہ! انشا سے کیں سہی
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی ہر
غرض کچھ اور دھُن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
تھا ساعتِ فرنگی - دل چپ جو ہو رہا ہے
کیا جانئے کہ کس نے ہے اس کی کل کو توڑا
اپنا دلِ شگفتہ تالاب کا کنول تھا
افسوس تو نے ظالم! ایسے کنول کو توڑا
لینی ہے جنسِ دل تو ظالم! تو آج لے چُک
پڑ جائے گا وگرنہ پھر اس کاکل کو توڑا
گل سے زیادہ نازک جو دلبرانِ رعنا
ہیں بیکلی میں شبنم کے پیرہن کے اندر
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks