بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
زنجیر کا وہ غل نہیں زنداں میں اے جنوں
دیوانہ قید خانہ تن سے نکل گیا
خلوت میں ہاتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں
ارباب انجمن ہوئے آتش ہجل تمام
وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے
پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا
یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے
بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر
شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ
نہ کیوں کر حشر ہوتا دیکھتے ہو
قیامت قد ترا لایا تو ہوتا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks