یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُو برُو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں* آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری
کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتاب آیا
بیمار عشق و رنج و محن سے نکل گیا
بیچارہ منہ چھپا کے کفن سے نکل گیا
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کر دل تمام
کرتی ہے روح مرحلہ آب و گل تمام
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks