ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نو چکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا
یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما*ں رہ گیا
دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks