دل کہتا ہے وہ کچھ بھی ہو اس کی یاد جگائے رکھ
عقل یہ کہتی ہے کہ توہّم پر جینا نادانی ہے
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے نا شناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں ، سایہ نہیں ہوں میں
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہُنر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رُک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب گار
ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور
کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو
دُکھ اور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں اور
بن عشق اسے کیونکر جانوں
جو عشق سراپا حال ہوا
وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے
وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لئے
بے حسی وہ ہے کہ کرتا نہیں انساں محسوس
اپنی ہی روح میں *آئی ہوئی طغیانی کو
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks