ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے
انساں کا ہو گا ہا تھ اس میں
اللہ کا جو غضب لکھو گے
ہائے وہ شمع جو اب دور کہیں جلتی ہے
میرے پہلو میں بھی پگھلی ہے سحر ہو نے تک
خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے
ایسے ملتا نہیں مٹّی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے
یار مرا زنجیریں پہنے آیا ہے بازاروں میں *
میں *کہ تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں ہوں *
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
لوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لوٹیں تو دکھیں *
وہ زمانے جو ترے ساتھ گزارے ہم نے
پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks