رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے
یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے
مرتا ہوں آرزو میں کہ اے کاش لکھ سکوں
جیسے ہیں آپ ایسی غزل آپ کے لیے
زلف کی چھاؤں ہو کہ دار کی دھوپ
زندگی ہو جہاں قرار کرو
اک متاع ِ دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے
ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
اور یہ عشق و ہوس کی دنیا
تشنگی کے سوا کیا پائے گی
دور تک ہم ہی نظر آئیں گے
جس طرف بھی وہ نظر جائے گی
قید کی عمر ایسی راس آئی
سو رہی بازوں ہی میں پرواز
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks