تیر کھا کر جو مڑ دیکھا کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
کر لیا دوستوں کی محبت کا یقین میں نے
پھولوں میں چھپا ہوا خنجر نہیں دیکھا
Yehi buhat hai k dil osko dhound laya hai
kisi k sath sahi, wo nazar to aaya hai
کوئی کیا آئے گا نظر تجھ سا
کوئی مجھ سا نظر نہیں*آتا
قطرہ جس وقت محو دریا ہو
اس کو دریا نظر نہیں آتا
بچھڑ کے پھر سے ملیں گے یقین کتنا تھا
تھا ایک خواب ہی لیکن حسین کتنا تھا
مرے سوال سے پہلے وہ مجھ کو چھوڑ گیا
حسیں تو تھا ہی وہ لیکن ذہین کتنا تھا
میں تو ساحل تھا چلتا بھی تو کیسے چلتا
وہ بھی موجوں کی طرح آیاتوپل بھرٹھہرا
چاند پگلا ہے چلا آیا جو میری جانب
میں توبادل تھاہمیشہ ہی سےبےگھرٹھہرا
جب سچا سُچا خونِ جگر آنکھوں کی طرف بڑھ آتا ہے
یہ لوگ سیانے کہتے ہیں تب اِک آنسو بن پاتا ہے
یہ آنکھ میں بس اِک قطرہ نہیں یہ صدف میں گویا گوہر ہے
کتنا ناداں انساں ہے رضا بے وجہ موتی لُٹا تا ہے
گیلے کاغذ کی طرح زندگی ٹھہری اپنی
کوئی لکھتا بھی نہیں ، کوئی جلاتا بھی نہیں
تھک جاتی ہے یہ زندگی ، یونہی کبھی کبھی
آتی ہے یاد جب بھی تیری ، یونہی کبھی کبھی
ملتے ہیں جو دو دل کہیں تو سوچتا ہوں میں
تھی تم سے اپنی دوستی ، یونہی کبھی کبھی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks