نام بھی جس کا زبان پر تھا دعاؤں کی طرح
وہ مجھے ملتا رہا نا آشناؤں کی طرح
یہ دل بُرا سہی ، سرِ بازار تو نہ کہہ
آخر تُو اِس مکان میں کچھ دن تو رہا ہے
یہ سچ ہے عقل نے مجھے پختگی تو دی
مگر وہ مزا کہاں جو نادانوں میں تھا
گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا ، میری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے
اب تو مل جاؤ ہمیں تم ، کہ تمہاری خاطر
اتنا دور آگئے ، دنیا سے کنارہ کرتے
وہ ماہتاب جو ڈوبا ھوا ملال میں تھا
مجھے خبر ھی نہیں ھے میں کس خیال میں تھا
شکست کھا کے بھی میں سرخرو سا لگتا ھوں
کہ دوستی کا مزا دشمنوں کی چال میں تھا
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے
نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرادیکھوں
شام بھی ہوگئی،دُھند لاگئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں
There are currently 13 users browsing this thread. (0 members and 13 guests)
Bookmarks