لوگ پتھر مارنے آئے تو وہ بھی ساتھ تھے
ہم خطائیں جن کی اپنے نام لکھواتے رہے
یاد ہے آنکھوں کے آگے اِک دُھند کا منظر
کس پل مجھ سے وُہ بچھڑا تھا یاد نہیں ہے
یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
اب تیرا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذودِ پیشیماں کا پیشیماں ہونا
کب تلک یہ عذاب دیکھوں میں؟
گھر میں صحرا کے خواب دیکھوں میں
اَبر، تشنہ لبی کا دُشمن ہے
ریت چمکے سراب دیکھوں میں
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا؟
بھُلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا؟
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
وقت کی آنچ پر پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
قہقہے ٹوٹ کر اشکوں میں بکھر جاتے ہیں
کون نبھاتا ہے کسی کا ساتھ عمر بھر
وقت کے ساتھ خیالات بھی بدل جاتے ہیں
کمرے سے باہر کا منظر
بادل بارش اور ہوا
کمرے کے اندر کا موسم
آنکھیں، آنسو اور دعا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks