تمہارا سَر نہیں طِفلانِ رہ گزر کے لئیے
دیارِ سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ نہیں
محو ِ آرائش ِ رُخ ہے وہ قیامت سر ِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے
ہر لمحہ یہاں ہے ایک ہو نا
کس بات کا کیا سبب لکھو گے
تو کہیں بھی رہے زندہ ہے لہو میں میر ے
میں سنواروں گا تجھے خاک بسر ہونے تک
ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے
سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے
اُس لمحے تو گردش خوں نے میری یہ محسوس کیا
جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ہوں
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اس کے دامن سے
جھولیوں بھر لیے آنکھوں میں ستارے ہم نے
There are currently 8 users browsing this thread. (0 members and 8 guests)
Bookmarks