ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجا رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
داغ کی شامت جو آئی اضطراب شوق میں
حال دلکمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ دیا
کیا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں
پھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا
کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ کسی کی ہے شہرت
کیا تم نے کبھی داغ کا دیوان نہیں دیکھا
تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے
کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا
روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں
تجھ بن اے نور بصر دکھنے لگا
مدار ہے ناصحو تمھی پر تمام اب اس کی منصفی کا
زرا تو کہنا خدا لگی بھی فقط سخن پروری نہ کرنا
دل لےکے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹیشکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks